وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا عِنۡدَنَا خَزَآئِنُہٗ ۫ وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ﴿۲۱﴾

۲۱۔ اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں پھر ہم اسے مناسب مقدار کے ساتھ نازل کرتے ہیں۔

21۔ خزانۂ قدرت سے مرحلۂ خلقت میں آنے کو نزول سے تعبیر فرمایا۔ یہ نزول اندھی بانٹ نہیں ہے بلکہ بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ ایک مقررہ حد، ایک معین دستور اور ایک حکیمانہ تقدیر کے مطابق ہے۔ آج کے انسان کے لیے اس بات کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ اللہ کے خرانوں سے نزول کیسے ہوتا ہے۔ کہکشاؤں اور دیگر آفاق عالم سے آنے والی شعاعوں کے زمین پر نمودار ہونے والی چیزوں پر بنیادی اثرات ہیں، بلکہ یہاں کے لیے خام مٹیریل وہاں سے نازل ہوتا ہے، جس کے بعد یہاں انسان، حیوان، درخت، میوے وغیرہ وجود میں آتے ہیں۔ اگر زمین کو اس نزول سے الگ کیا جائے تو یہاں ایک پتہ بھی سبز نہ ہو۔

وَ اَرۡسَلۡنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسۡقَیۡنٰکُمُوۡہُ ۚ وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ لَہٗ بِخٰزِنِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اور ہم نے باردار کنندہ ہوائیں چلائیں پھر ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے تمہیں سیراب کیا (ورنہ) تم اسے جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔

22۔ اس آیت میں ایک اہم رازِ قدرت کی طرف اشارہ ہے کہ بعض درختوں اور نباتات کو بارآوری کی ضرورت ہے اور یہ بارآوری ہواؤں کے ذریعے انجام پاتی ہے۔

وَ اِنَّا لَنَحۡنُ نُحۡیٖ وَ نُمِیۡتُ وَ نَحۡنُ الۡوٰرِثُوۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور بے شک ہم ہی زندہ کرتے اور مارتے ہیں اور ہم ہی وارث ہیں۔

وَ لَقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَقۡدِمِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ لَقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَاۡخِرِیۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ اور بتحقیق ہم تم میں سے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور پچھلوں کو بھی جانتے ہیں۔

وَ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ یَحۡشُرُہُمۡ ؕ اِنَّہٗ حَکِیۡمٌ عَلِیۡمٌ﴿٪۲۵﴾

۲۵۔ اور آپ کا رب ہی ان سب کو (ایک جگہ) جمع کرے گا، بے شک وہ بڑا حکمت والا، علم والا ہے۔

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿ۚ۲۶﴾

۲۶۔ بتحقیق ہم نے انسان کو سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا۔

26۔ اس میں صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو براہِ راست خاکی عناصر سے بنایا ہے۔ اس آیت سے ارتقاء انواع ثابت نہیں ہوتا، البتہ تخلیقِ آدم علیہ السلام کے مراحل کا عندیہ ملتا ہے۔

وَ الۡجَآنَّ خَلَقۡنٰہُ مِنۡ قَبۡلُ مِنۡ نَّارِ السَّمُوۡمِ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور اس سے پہلے ہم لو (گرم ہوا) سے جنوں کو پیدا کر چکے تھے۔

27۔ جن ایک مخفی مخلوق ہے جو آتشیں ہوا نَّارِ السَّمُوۡمِ سے تخلیق ہوئی اور کرﮤ ارض ابتدا میں آتشیں گیس سے عبارت تھا۔ ممکن ہے اسی سے جن کی تخلیق ہوئی ہو۔

وَ اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور ( وہ موقع یاد رکھو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا: میں سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں۔

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ پھر جب میں اس کی تخلیق مکمل کر لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جاؤ۔

28۔29 بَشَرًا: البَشَرۃُ و البَشَرُ انسان کی ظاہری جلد کو کہتے ہیں۔ بشرۃ الارض زمین سے نمایاں ہونے والی نبات کو کہتے ہیں (صحاح)۔ لہٰذا بَشَرْ ظہور کے معنی میں ہے اور جن پوشیدہ اور مخفی کے معنی میں۔

نَفَخۡ کسی چیز کے اندر ہوا بھرنے کو کہتے ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ ثابت ہے اور ہم آئندہ تفصیلاً ذکر کریں گے کہ روح غیر مادی چیز ہے، لہٰذا یہاں نفخ سے مراد جسم مادی سے روح کا تعلق ہے۔ یہ تعلق ارادہ خدا سے وجود میں آیا ہے۔ اسی ارادے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس روح کو اپنی طرف نسبت دی ہے۔ اس طرح ہم روح کو الٰہی توانائی کہ سکتے ہیں۔

فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۳۰﴾

۳۰۔ پس تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کر لیا،