اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ﴿۳۱﴾

۳۱۔ سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔

قَالَ یٰۤـاِبۡلِیۡسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوۡنَ مَعَ السّٰجِدِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اللہ نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟

قَالَ لَمۡ اَکُنۡ لِّاَسۡجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ﴿۳۳﴾

۳۳۔ کہا: میں ایسے بشر کو سجدہ کرنے کا نہیں ہوں جسے تو نے سڑے ہوئے گارے سے تیار شدہ خشک مٹی سے پیدا کیا ہے۔

قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾

۳۴۔ اللہ نے فرمایا: نکل جا! اس مقام سے کیونکہ تو مردود ہو چکا ہے ۔

وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ اللَّعۡنَۃَ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴿۳۵﴾

۳۵۔ اور تجھ پر تا روز قیامت لعنت ہو گئی۔

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۳۶﴾

۳۶۔ کہا : میرے رب! پھر مجھے لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک مہلت دے دے۔

قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ﴿ۙ۳۷﴾

۳۷۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے

اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ﴿۳۸﴾

۳۸۔ معین وقت کے دن تک۔

34 تا 38۔ ابلیس کو اپنی درگارہ سے راندہ کرنے کے بعد فرمایا: تا روز قیامت تجھ پر لعنت ہے۔ شاید ابلیس نے ”تا روز قیامت“ سے یہ مفہوم اخذ کیا ہو کہ اسے قیامت تک انسان سے واسطہ پڑنے کا امکان ہے۔ یہاں سے اس نے اللہ سے مہلت مانگی۔ یہ مہلت قیامت تک کے لیے مانگی تھی، مگر ایک معلوم وقت تک کے لیے مہلت دے دی گئی۔ ابلیس کو مہلت دینے پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ابلیس کو مہلت اور موقع دے کر قدرت نے اسباب ضلالت فراہم کیے۔ جواب یہ ہے کہ اولاً ابلیس کو انسانوں پر اتنا تسلط حاصل نہیں ہے کہ لوگوں کو گمراہ ہونے پر مجبور کرے۔ وہ صرف سبز باغ دکھا سکتا ہے۔ ثانیاً اللہ نے اگر ابلیس کو مہلت دی ہے اور گمراہی پھیلانے کا موقع دیا ہے تو اس کے مقابلے میں رشد و ہدایت کے بھی بہت سے اسباب فراہم کیے ہیں۔ اللہ نے انسان کو توحید کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ اس کی جبلت میں حق کی معرفت کی استعداد ودیعت فرمائی ہے۔ اللہ نے نفس انسانی کو نیک و بد کی سمجھ دی ہے۔ انبیاء بھیجے ہیں۔ ملائکہ بھی انسان کو راہ راست پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان دونوں مواقع کی موجودگی میں امتحان و آزمائش ہو سکتی ہے۔ اگر معاملات یکطرفہ ہوتے تو امتحان نامعقول اور ثواب و عقاب کا نظام ممکن نہ ہوتا۔ اس لیے انسان کو خیر و شر کے درمیان کھڑا کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیار سے جسے چاہے انتخاب کرے۔

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَاُغۡوِیَنَّہُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿ۙ۳۹﴾

۳۹۔ (ابلیس نے) کہا: میرے رب ! چونکہ تو نے مجھے بہکایا ہے (لہٰذا) میں بھی زمین میں ان کے لیے (باطل کو) ضرور آراستہ کر کے دکھاؤں گا اور سب کو ضرور بالضرور بہکاؤں گا۔

39۔ ابلیس نے اپنے بہکانے کی نسبت اللہ کی طرف دی اور اللہ تعالیٰ نے ابلیس کی بات کو رد بھی نہیں فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ ہی نے ابلیس کو گمراہ کیا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے اللہ نے اسے گمراہ کیا ہے، خود نہیں ہوا۔ جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو گمراہ کیا، لیکن گمراہی اس نافرمانی کے لازمی نتیجہ کے طور پر ہے جو ابلیس سے سرزد ہوئی نیز اللہ کی طرف گمراہی کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے اور جس سے اللہ اپنی رحمت کا ہاتھ اٹھاتا ہے اور اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر جاتا ہے۔ اللہ کے خالص بندے وہ ہیں کہ جنہیں خود اللہ نے خالص بنایا ہے اور اللہ ہر کسی کو خالص نہیں بناتا، بلکہ ان لوگوں کو خالص بناتا ہے جنہوں نے اپنی ذات کو اللہ کے لیے خالص بنایا ہو۔ یعنی ذات کو بلا شرکت غیرے صرف اللہ کی بندگی کے لیے خالص کیا ہو۔

اِلَّا عِبَادَکَ مِنۡہُمُ الۡمُخۡلَصِیۡنَ﴿۴۰﴾

۴۰۔ ان میں سے سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔