آیات 16 - 18
 

وَ لَقَدۡ جَعَلۡنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوۡجًا وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں میں نمایاں ستارے بنا دیے اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں زیبائی بخشی۔

وَ حَفِظۡنٰہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ اور ہم نے ہر شیطان مردود سے انہیں محفوظ کر دیا ہے ۔

اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ﴿۱۸﴾

۱۸۔ ہاں اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے ۔

تشریح کلمات

بروج:

( ب ر ج ) بروج قصور کو کہتے ہیں۔ وَ لَوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُرُوۡجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۷۸) اصل میں مادۂ ب ر ج ظہور و نمایاں کے معنوں میں ہے۔ اسی لیے عورت کی طرف سے اظہار زینت کو تبرج کہتے ہیں۔ قصور اور ستاروں کو بروج اسی ظہور و نمایاں ہونے کے اعتبار سے کہتے ہیں۔

شِہَابٌ:

( ش ھ ب ) شعلہ آتش کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

قدیم علم ہیئت، فلکیات میں برج ان بارہ منزلوں کو کہتے ہیں جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ قرآن کا بھی اشارہ انہی بروج کی طرف ہے حالانکہ فلکیاتی اصطلاح سے قرآن کا کوئی ربط نہیں ہے۔ آیت میں بروج سے مراد آسمان میں نمایاں نظر آنے والے ستارے ہیں۔

دوسری آیت میں فرمایا:

وَ حَفِظۡنٰہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ رَّجِیۡمٍ ﴿﴾ اِلَّا مَنِ اسۡتَرَقَ السَّمۡعَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیۡنٌ﴿﴾ (۱۵ حجر: ۱۷۔ ۱۸)

اور ہم نے ہر شیطان مردود سے انہیں محفوظ کر دیا ہے۔ ہاں اگر کوئی چوری چھپے سننے کی کوشش کرے تو ایک چمکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔

سورہ جن میں جنوں کی زبانی بیان ہوا:

وَّ اَنَّا لَمَسۡنَا السَّمَآءَ فَوَجَدۡنٰہَا مُلِئَتۡ حَرَسًا شَدِیۡدًا وَّ شُہُبًا ﴿﴾ وَّ اَنَّا کُنَّا نَقۡعُدُ مِنۡہَا مَقَاعِدَ لِلسَّمۡعِ ؕ فَمَنۡ یَّسۡتَمِعِ الۡاٰنَ یَجِدۡ لَہٗ شِہَابًا رَّصَدًا ﴿﴾ (۷۲ جن: ۸.۹)

اور یہ کہ ہم نے آسمان کو ٹٹولا تو اسے سخت پہرے داروں اور شہابوں سے بھرا ہوا پایا۔ اور یہ کہ پہلے ہم سننے کے لیے آسمان کے مقامات میں بیٹھا کرتے تھے، اب اگر کوئی سننا چاہتا ہے تو وہ ایک شعلے کو اپنی کمین میں پاتا ہے۔

سورۃ الملک میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ وَ جَعَلۡنٰہَا رُجُوۡمًا لِّلشَّیٰطِیۡنِ ۔۔۔ (۶۷ ملک: ۵)

اور بیشک ہم نے قریب ترین آسمان کو (ستاروں کے) چراغوں سے آراستہ کیا اور انہیں شیطانوں کے مارنے کا ذریعہ بنایا۔

وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ٭ۖ وَ حِفۡظًا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ﴿﴾ (۴۱ حٰمٓ سجدہ :۱۲)

اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا اور محفوظ بھی بنایا یہ سب بڑے غالب آنے والے، دانا کی تقدیر سازی ہے۔

ایک اہم سوال: یہ پیدا ہو رہا ہے کہ انسان نے فضا کو تسخیر کر لیا اور دیکھ لیا ہے کہ آسمانوں سے فرشتوں کی کوئی آواز نہیں آتی، نہ ہی کوئی ایسے اسرار موجود ہیں جو چرائے جا سکیں۔ ان میں فرشتوں کا کوئی وجود محسوس ہوا نہ ہی قابل سرقت اسرار کا پتہ چلا ہے۔

اس کے جواب میں بعض مفسرین نے آیت کی توجیہات و تاویلات کی ہیں۔ بعض نے احتمال دیا ہے کہ بطور مثال یہ تعبیر اختیار کی گئی ہے کہ غیر حسی حقائق واضح کرنے کے لیے انہیں حسی لباس میں پیش کیا گیا ہے۔ (المیزان، تفسیر سورۂ صافات)

بعض دیگر مفسرین کے نزدیک سمآء کا یہاں مفہوم حق، ایمان اور روحانیت کے آسمان کی طرف اشارہ ہے۔ شیطانوں کی ہر وقت یہ کوشش ہے کہ وہ اس چاردیواری میں داخل ہونے کے لیے راہ پا لیں اور سچے مؤمنین اور حامیان حق کے دلوں میں طرح طرح کے وسوسوں کے ذریعے نفوذ پیدا کر لیں لیکن مردان الٰہی اپنے علم و تقویٰ کی طاقتور موجوں کے ساتھ ان پر حملہ کرتے اور انہیں آسمان کے قریب ہونے سے ہانکتے ہیں۔ (تفسیر نمونہ ۱۱: ۶۳)

اس تاویل کے مطابق آسمان سے روحانیت و ایمان اور شہاب ثاقب سے علم و تقویٰ مراد ہے جو سباق و سیاق آیت سے بہت دور ہے نیز تاویل کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب آیت کا ظاہری مفہوم کسی امر مسلم سے متصادم ہو۔ ہم آگے بتائیں گے کہ یہاں آیت کا ظاہری مفہوم کسی مسلمہ سے متصادم نہیں ہے۔ اس تاویل کی وجہ وہ انکشافات ہیں جو انسان کو فضائے ارضی کے نہایت محدود علاقے میں ہوئے ہیں۔

آسمان اول: سورہ ملک اور سورہ حٰمٓ سجدہ میں فرمایا:

وَ زَیَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنۡیَا بِمَصَابِیۡحَ ۔۔۔۔

اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے آراستہ کیا۔۔۔۔

اس آیت کی رو سے معلوم ہوا کہ جو ستارے اب تک انسان کے مشاہدے میں آئے ہیں وہ سات آسمانوں میں سے آسمان اول یعنی السَّمَآءَ الدُّنۡیَا سے مربوط ہیں۔ اس صورت میں سمائے دنیا کی وسعتوں کا اندازہ لگانا اب تک انسان کے لیے ممکن نہیں ہوا ہے۔ جس حد تک انسان کے علم و مشاہدے میں آیا ہے وہ بھی عظیم اور وسیع ہے کہ بعض ستارے ہم سے کئی ارب نوری سال کے فاصلے پر ہیں اور بعض ستارے ایسے بھی ہیں جن کی روشنی ہم تک نہیں پہنچی ہے۔ اس فضائے بیکراں میں اس ارضی فضا کی قطعاً کوئی اہمیت نہیں ہے جسے انسان نے مسخر کیا ہے اور جس کی بنا پر آیت کی تاویل کی جاتی ہے۔

مصابیح و رجوم: سورۃ الملک کی آیت میں ان ستاروں کو دو عنوان دیے گئے ہیں : اول یہ کہ ان ستاروں کو چراغ بنایا اور دوم یہ کہ ان کو شیاطین کو مارنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ سورہ حٰمٓ سجدہ کی آیت میں فرمایا: ہم نے ان ستاروں کو چراغ اور تحفظ کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہی ستارے شیطان کو دھتکارنے کا ذریعہ بھی ہیں۔

شہاب ثاقب : شہاب سے مراد درج بالا آیات کے استعمال کے اعتبار سے وہی ستارے ہیں جن سے آسمان اول کو آراستہ کیا ہے اور اس بات پر کوئی قطعی دلیل نہیں ہے کہ شہاب سے مراد وہ آسمانی پتھر ہیں جو ہر روز اوسطاً دس کھرب ہوتے ہیں اور ان میں سے دو کروڑ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں اور کبھی ستر کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے زمین کی طرف آتے ہیں۔ اسی تیز رفتاری کی وجہ سے جب وہ زمین کے گرد موجود ہوائی غلاف سے ٹکراتے ہیں تو شعلہ آتش میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور زمین پر بسنے والوں کو آتشیں گولی چلنے کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔

قدیم یونانی فلاسفروں کا ان شہابوں کے بارے میں یہ نظریہ تھا کہ آفتاب کی تمازت سے جو بخارات زمین سے اٹھتے ہیں ان میں کچھ آتش گیر مادے بھی ہوتے ہیں۔ اوپر جا کر جب ان کو آفتاب یا کسی اور چیز سے مزید گرمی ملتی ہے تو وہ سلگ اٹھتے ہیں اور دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ستارہ ٹوٹا ہے۔

تعجب کامقام ہے کہ ہمارے معاصر مؤلف معارف قرآن نے اس فرسودہ نظریے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا ہے۔

لہٰذا آسمان سے مراد نہ فضائے ارضی کا نہایت محدود علاقہ ہے، نہ ہی شہاب سے مراد وہ آسمانی پتھر ہیں جو ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔البتہ بعض احادیث میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ شہاب سے مراد شہاب ثاقب ہیں جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں لیکن قرآن کی تعبیر اس کے خلاف ہے۔ قرآن کی تعبیر کے مطابق جو ستارے آسمان اول کے لیے چراغ و زینت بنائے گئے ہیں وہی شہاب ثاقب کا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ انہیں ستاروں کو قرآن نے رُجُوۡمًا اور حفظاً سے تعبیر کیا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

کان ابلیس یخرق السماوات السبع فلما ولد عیسی (ع) حجب عن ثلاث سماوات و کان یخرق اربع سماوات، فلما ولد رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم) فی عام الفیل فی شھر ربیع الاول حین طلع الفجر حجب عن السبع کلھا و رمیت الشیاطین بالنجوم ۔۔۔۔ (الخرائج و الجرائح ۱: ۲۱)

ابلیس سات آسمانوں کو پھلانگتا تھا۔ جب عیسیٰ ع کی ولادت ہوئی تو اسے تین آسمانوں سے روک دیا گیا اور وہ چار آسمانوں کو پھلانگنے لگا۔ جب عام الفیل ربیع الاول میں طلوع فجر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو پورے سات آسمانوں سے روک دیا گیا اور ستاروں سے شیطانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

اس روایت اور دیگر روایات میں بھی ستاروں کو شیاطین کو نشانہ بنانے کا ذریعہ بنایا گیا ہے اور آسمان سے مراد بھی آسمان کی فضائے بیکراں ہے جہاں فرشتگان کا مسکن اور محل راز ہائے قدرت ہے۔

علامہ طباطبائیؒ کی توجیہ بھی اسی بات کے نزدیک ہے جو ہم نے بیان کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

وعلی ھذا یکون المراد من السماء التی تسکنھا الملائکۃ عالماً ملکوتیاً۔۔۔ والمراد باقتراب الشیاطین۔۔ اقترابہم من عالم الملائکۃ۔۔ و رمیھم بما لا یطیقونہ من نور الملکوت ۔۔۔۔ (المیزان ذیل آیہ)

لہٰذا ہو سکتا ہے فرشتوں کی سکونت والے آسمان سے مراد کوئی عالم ملکوت ہو اور شیطانوں کا نزدیک ہونے کی کوشش سے مراد یہی عالم ملائکہ سے نزدیک ہونا ہو اور ان شیطانوں کو نور ملکوت سے نشانہ بنایا جاتا ہو۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی صنعت میں جمالیاتی عنصر غالب ہے: وَّ زَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیۡنَ ۔

۲۔ راز ہائے قدرت کو کوئی جن نہیں چرا سکتا۔ وَ حَفِظۡنٰہَا ۔۔۔۔


آیات 16 - 18