آیات 14 - 15
 

وَ لَوۡ فَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوۡا فِیۡہِ یَعۡرُجُوۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیں اور وہ روز روشن میں اس پر چڑھتے چلے جائیں۔

لَقَالُوۡۤا اِنَّمَا سُکِّرَتۡ اَبۡصَارُنَا بَلۡ نَحۡنُ قَوۡمٌ مَّسۡحُوۡرُوۡنَ﴿٪۱۵﴾

۱۵۔ تو یہی کہیں گے: ہماری آنکھوں کو یقینا مدہوش کیا گیا بلکہ ہم پر جادو کیا گیا ہے۔

تفسیر آیات

ان کا ایمان نہ لانا دلیل و برہان یا معجزات کے فقدان کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اگر ہم فرشتوں کے حاضر کرنے سے زیادہ مؤثر قدم اٹھاتے کہ ان کو آسمان کی طرف اٹھا کر لے جاتے، یہ خدائی اسرار ملکوت و عجائب آسمانی کا روز روشن، عالم بیداری میں بہ چشم خود مشاہدہ کر بھی لیتے تو بھی یہ ایمان نہ لاتے اور اسے جادو قرار دیتے۔ چنانچہ ایسا ہوا بھی ہے کہ روسی خلانوردوں نے جب فضائے بالا میں پہلی پرواز کی تو انہوں نے کہا: یوں لگ رہا تھا کہ ہماری آنکھوں پر جادو کیا گیا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عناد والا کافر مشاہدات و محسوسات کا بھی منکر ہوتا ہے۔

۲۔ آسمان کے بھی دروازے ہوتے ہیں : بَابًا مِّنَ السَّمَآءِ ۔۔۔۔

۳۔ آسمان کی طرف عروج ممکن امر ہے: فَظَلُّوۡا فِیۡہِ یَعۡرُجُوۡنَ ۔


آیات 14 - 15