آیت 19
 

وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡزُوۡنٍ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور زمین کو ہم نے پھیلایا اور اس میں پہاڑ گاڑ دیے اور ہم نے زمین میں معینہ مقدار کی ہر چیز اگائی۔

تشریح کلمات

مَّوۡزُوۡنٍ:

( و ز ن ) الوزن کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ الۡاَرۡضَ مَدَدۡنٰہَا: زمین کو اس طرح پھیلایا کہ اس کی پشت پر بسنے والوں کو زندگی کی ہر سہولت میسر آئے۔ نہ پوری زمین کو کوہستان بنایا کہ زراعت و سکونت کے قابل نہ ہو، نہ ہی پوری زمین کو میدان بنایا۔ اگر ایسا ہوتا تو ان میدانوں کو سیراب کرنے کے لیے پہاڑوں سے دریا نہ بہتے۔

۲۔ وَ اَلۡقَیۡنَا فِیۡہَا رَوَاسِیَ: ان پہاڑوں سے بہنے والے دریاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے میدانوں میں ہر قسم کی سبزی اگائی۔

۳۔ وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ: زمین سے اُگنے والی ہر چیز موزوں و معین مقدار میں ہے۔ یہ موزونیت اس قدر دقیق اور عمیق ہے کہ اس توازن میں ذرہ برابر فرق آجائے تو وہ پودا وجود میں نہیں آ سکتا۔ یہ موزوں عناصر کے توازن سے وجود میں آتا ہے اور عناصر کی ترکیب سے نباتات میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ دانہ جب زمین میں جاتا ہے تو اس دانے کو علم ہے کہ مطلوبہ چیز اگانے کے لیے کن عناصر کو جذب کرنا ہے۔ چنانچہ جڑوں کو یہ ہدایات جاری کی جاتی ہیں۔ مطلوبہ چیز، مثلاً ٹماٹر کو لازم عناصر کے علاوہ دیگر عناصر کو جذب نہیں کرنا ہے چونکہ دیگر عناصر ٹماٹر کے لیے موزوں نہیں ہیں۔

اہم نکات

۱۔ کوہ و دمن انسان کو وسائل حیات فراہم کرتے ہیں۔

۲۔ ایک وزن و مقدار کی حدود میں نباتات اُگتے ہیں : وَ اَنۡۢبَتۡنَا فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ ۔۔۔۔

۳۔ نباتات کی نشوونما میں توازن کو دخل ہے۔


آیت 19