وَ اَنۡذِرِ النَّاسَ یَوۡمَ یَاۡتِیۡہِمُ الۡعَذَابُ فَیَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رَبَّنَاۤ اَخِّرۡنَاۤ اِلٰۤی اَجَلٍ قَرِیۡبٍ ۙ نُّجِبۡ دَعۡوَتَکَ وَ نَتَّبِعِ الرُّسُلَ ؕ اَوَ لَمۡ تَکُوۡنُوۡۤا اَقۡسَمۡتُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ مَا لَکُمۡ مِّنۡ زَوَالٍ ﴿ۙ۴۴﴾

۴۴۔ اور لوگوں کو اس دن کے بارے میں تنبیہ کیجیے جس دن ان پر عذاب آئے گا تو ظالم لوگ کہیں گے: ہمارے رب ہمیں تھوڑی مدت کے لیے ڈھیل دے دے اب ہم تیری دعوت پر لبیک کہیں گے اور رسولوں کی اتباع کریں گے، (انہیں جواب ملے گا) کیا اس سے پہلے تم قسمیں نہیں کھاتے تھے کہ تمہارے لیے کسی قسم کا زوال و فنا نہیں ہے؟

44۔ یہاں روزِ عذاب سے مراد عذاب دنیا ہے جیسے قوم عاد و ثمود پر نازل ہوا۔ اس پر اَخِّرۡنَاۤ یعنی تاخیر کرو، کچھ مدت کے لیے ڈھیل دے دو، قرینہ ہے۔ اگر قیامت کے روز کے لیے ہوتا تو تاخیر کا لفظ استعمال نہ ہوتا، بلکہ اس کے لیے تو رَدْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔