آیت 41
 

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیَّ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ﴿٪۴۱﴾

۴۱۔ اے ہمارے رب مجھے اور میرے والدین اور ایمان والوں کو بروز حساب مغفرت سے نواز۔

تفسیر آیات

اس آیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والدین کا ایمان قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ حضرت خلیل علیہ السلام نے اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی مغفرت کے لیے یہ دعا کی ہے کیونکہ یہ دعا حضرت اسماعیل و اسحق علیہما السلام کی ولادت کے بعد کی ہے اور ان کی ولادت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیرانہ سالی میں ہوئی ہے۔ جیسا کہ آیت کی صراحت ہے: وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ۔۔۔۔ آیت کی صراحت کے باوجود صاحب روح المعانی لکھتے ہیں :

بناء علی زعمھم ان ھذا الدعاء کان بعد الکبر وھبۃ اسماعیل واسحاق ۔ (روح المعانی ۱۳: ۲۴۳۔ طبع بیروت)

شیعوں کے گمان کے مطابق (حضرت ابراہیم ؑکی) یہ دعا ان پر بڑھاپا آنے اور انہیں اسماعیل و اسحاق عطا ہونے کے بعد کی ہے۔

ان کے مطابق قرآن کی صراحت شیعوں کا گمان ہے۔ کَبُرَتۡ کَلِمَۃً تَخۡرُجُ مِنۡ اَفۡوَاہِہِمۡ ۔۔۔۔ (۱۸کہف :۵)

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ آزر کے لیے لفظ ابْ باپ استعمال ہوا ہے جو حقیقی باپ اور چچا دنوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور یہاں دعائے مغفرت کے لیے لفظ ’’والدین‘‘ استعمال ہوا ہے جو صرف حقیقی باپ کے لیے محضوص ہے۔

اس کے باوجود یہاں اس قدر ناانصافی ہوئی ہے کہ لوگ اَبۡ سے حقیقی باپ مراد لیتے ہیں اور اس جگہ والد سے مراد حضرت نوح علیہ السلام لیتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں والد سے مراد آدم علیہ السلام ہیں۔ کچھ لوگ کہتے والدی نہیں ، ولدی دونوں بیٹے اسماعیل و اسحاق علیہما السلام مراد ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ لفظ ولدی اولاد مراد ہے۔

البتہ علامہ جلال الدین سیوطی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا ہے کہ اس جگہ والدین سے مراد حقیقی والدین ہی ہیں اور وَ مَا کَانَ اسۡتِغۡفَارُ اِبۡرٰہِیۡمَ لِاَبِیۡہِ ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۱۱۴) میں اَبۡ سے مراد چچا ہے کیونکہ عرب چچا کو اَبۡ اور چچی کو اُمْ کہتے ہیں۔(تفسیر روح البیان ۴: ۴۳۰)

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ الانعام آیت ۷۴۔

اہم نکات

۱۔ والدین اور مؤمنین کی مغفرت کے لیے دعا کرنا سیرت انبیاء علیہم السلام ہے۔


آیت 41