آیت 13
 

اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ ۚ فَاللّٰہُ اَحَقُّ اَنۡ تَخۡشَوۡہُ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ کیا تم ایسے لوگوں سے نہیں لڑو گے جو اپنی قسمیں توڑ دیتے ہیں اور جنہوں نے رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا تھا ؟ پہلی بار تم سے زیادتی میں پہل بھی انہوں نے کی تھی کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَا تُقَاتِلُوۡنَ قَوۡمًا: اس آیت میں مشرکین کی طرف سے گزشتہ ۲۲ سالوں میں ہونے والی زیادتیوں کا ذکر ہے جن کی بنا پر آج ان سے کسی قسم کی نرمی برتنے کا جواز نہیں رہا اور نہ ہی یہ لوگ کسی رعایت کے قابل رہے:

نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ: ان لوگوں نے حدیبیہ میں جس معاہدے کی پاسداری کرنے کی قسمیں کھائی تھیں ان کو توڑ دیا اور اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔

ii۔ وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ: رسول اللہؐ کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا بلکہ ان کو مکہ جیسے حرم الٰہی اور امن کی جگہ پر قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔ بعض کے نزدیک وَ ہَمُّوۡا بِاِخۡرَاجِ الرَّسُوۡلِ رسولؐ کو نکالنے کا ارادہ کیا سے مراد مدینہ سے نکالنے کا ارادہ ہے جو مشرکین نے جنگ احد کے موقع پر کیا تھا۔ بعض دیگر مفسرین کہتے ہیں اس سے مراد فتح مکہ کے موقع پر مشرکین نے رسولؐ کو مکہ سے نکالنے کا قصد کیا تھا۔ اس سے مراد ہجرت نہیں ہو سکتی چونکہ یہ معاہدہ توڑنے کے بعد کا واقعہ ہے۔

iii۔ وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ: جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ، سب میں ان لوگوں نے پہل کی۔ اس میں مستشرقین کے معاندانہ الزام کا رد ہے کہ اسلام کی جنگیں جارحانہ تھیں۔ اس جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام جنگوں میں مشرکین نے پہل کی تھی۔ اسلام نے اپنے دفاع کی جنگ لڑی ہے۔

۲۔ اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ: لہٰذا آج مشرکین کو اگرچہ آئندہ حج کرنے سے منع کیا ہے اور تمام مشرکوں سے معاہدوں کو بہ یک جنبش قلم منسوخ کیا ہے، اس سے یہ امکان ہنوز باقی ہے کہ پورے ملک کے مشرکین جمع ہو جائیں اور مسلمانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ تاہم تمہیں ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ کل بے سر و سامانی میں وہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے، آج تم ملک کے بڑے حصے پر قابض ہو اور مشرکین میں کوئی قابل توجہ طاقت بھی باقی نہیں رہی، اس کے باوجود اَتَخۡشَوۡنَہُمۡ کیا تم ان سے ڈرتے ہو۔ ڈرنا اس ذات کی ناراضگی سے چاہیے جس کے ہاتھ میں کل کائنات کی حکومت ہے۔

اہم نکات

۱۔ کافر جنگ و جارحیت میں پہل کرتا ہے: وَ ہُمۡ بَدَءُوۡکُمۡ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۔۔۔۔

۲۔ صرف مؤمن کے دل میں خوف خدا پیدا ہوتا ہے: اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۔


آیت 13