آیت 16
 

اَمۡ حَسِبۡتُمۡ اَنۡ تُتۡرَکُوۡا وَ لَمَّا یَعۡلَمِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ جٰہَدُوۡا مِنۡکُمۡ وَ لَمۡ یَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ لَا رَسُوۡلِہٖ وَ لَا الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَلِیۡجَۃً ؕ وَ اللّٰہُ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ﴿٪۱۶﴾

۱۶۔ کیا تم لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ یونہی چھوڑ دیے جاؤ گے؟ حالانکہ اللہ نے ابھی یہ بھی نہیں دیکھا ہے کہ تم میں سے کس نے جہاد کیا اور کس نے اللہ ، اس کے رسول اور مومنین کے سوا کسی اور کو اپنا بھیدی نہیں بنایا اور اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَمۡ حَسِبۡتُمۡ: اظہار ایمان و عقیدے کے لیے زبان ہلانا نہایت آسان کام ہے مگر اس زبانی دعویٰ کے پیچھے دل میں کیا نظریہ چھپا ہوا ہے، اس کا اظہار صرف آزمائش ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ضمیروں کا فاش کرنا اور دلوں میں چھپے ہوئے کافرانہ بھیدوں کو طشت از بام کرنا، اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت میں ہے۔

۲۔ وَ لَمۡ یَتَّخِذُوۡا: اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریمؐ کی زندگی کے آخر میں منافقوں اور کمزور ایمان والوں کی قابل توجہ تعداد میں افراد مشرکین کے ساتھ رابطے میں تھے اور بہت سے لوگوں کی کرتوتوں پر پردہ پڑا ہوا تھا۔ لہٰذا یہ بات ضروری تھی کہ کسی ذریعے سے یہ بات سب کے سامنے آ ہی جائے کہ سچے مؤمن کون ہیں اور صرف دعویٰ ایمان کرنے والے کون ہیں ؟

چنانچہ یہ بات اپنی جگہ ثابت ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ جو کہ اصحاب بدر میں سے تھے، کا مشرکین مکہ کے ساتھ رابطہ تھا اور انہوں نے اہل مکہ کو اطلاع دے دی تھی کہ ان کی طرف سے حدیبیہ کا معاہدہ توڑنے کے بعد رسول اللہؐ ان کے ساتھ جنگ کرنے کا قصد رکھتے ہیں۔ جب اصحاب بدر کا یہ حال ہو تو دوسرے عام لوگوں ، خصوصاً منافقوں کا کیا حال ہو گا۔ (المنار ۱۰: ۲۰۲)

اہم نکات

۱۔ آزمائش سے صالح افراد کی صلاحیتیں نکھرتی ہیں اور غیر صالح افراد کے اسرار فاش ہو جاتے ہیں۔


آیت 16