وَ یُذۡہِبۡ غَیۡظَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور ان کے دلوں کا غصہ نکالے اور اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

14۔15 ان سے جنگ کرو اللہ تعالیٰ اپنی مشیت و ارادے کے لیے سبب بنائے گا اور تمہارے ہاتھوں اللہ ان کو عذاب دے گا۔ اس سے ان مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے گی جن کو ان مشرکوں نے آزار پہنچایا تھا اور مسلمانوں کی فتح و نصرت دیکھ کر ان ظالموں کے بارے میں جو غیظ و غضب ہے وہ فرو ہو جائے گا۔

انسان اپنے افعال میں خود مختار ہیں یا مجبور، اہل سنت کے ہاں دو نظریے ہیں۔ ایک اشعری مذہب جو جبر کا قائل ہے اور اہل سنت کا اکثریتی مذہب ہے۔ دوسرا معتزلہ جو خود مختاری اور تفویض کا نظریہ رکھتا ہے۔ یہ مذہب آج کل تقریباً متروک ہو چکا ہے۔ اشعری مذہب والے اپنے نظریہ جبر پر اس آیت کے جملہ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ سے استدلال کرتے ہیں اور کہتے ہیں: دیکھیے عذاب کو اللہ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور یہ فعل مسلمانوں کے ہاتھ سے صرف آلہ کے طور پر صادر ہو رہا ہے، لہٰذا ثابت ہوا ہے کہ تمام افعال اللہ کے ہیں، بندے تلواروں اور نیزوں کی طرح صرف آلہ ہیں۔