آیات 14 - 15
 

قَاتِلُوۡہُمۡ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ وَ یُخۡزِہِمۡ وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ ان سے لڑو تاکہ تمہارے ہاتھوں اللہ انہیں عذاب دے اور انہیں رسوا کرے اور ان پر تمہیں فتح دے اور مومنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے۔

وَ یُذۡہِبۡ غَیۡظَ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴿۱۵﴾

۱۵۔ اور ان کے دلوں کا غصہ نکالے اور اللہ جس کی چاہتا ہے توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، حکمت والا ہے۔

تفسیر آیات

ان سے جنگ کرو۔ اللہ تعالیٰ اپنی مشیت و ارادے کے لیے سبب بنائے گا اور تمہارے ہاتھوں اللہ ان کو عذاب دے گا۔ اس سے ان مسلمانوں کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے گی جن کو ان مشرکوں نے آزار پہنچایا تھا اور مسلمانوں کی فتح و نصرت دیکھ کر ان ظالموں کے بارے میں جو غیظ و غضب ہے، وہ فرو ہو جائے گا۔

کفر کے ساتھ مقابلہ کرنے، دوسرے لفظوں میں کفار کے خلاف جہاد کرنے کے درج ذیل نتائج ہیں :

الف: یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ: مسلمانوں کے ہاتھوں اللہ ان کو عذاب دے گا۔

ب: وَ یُخۡزِہِمۡ: جیسا کہ بدر و دیگر جنگوں میں کافروں کو رسوائی اٹھانا پڑی۔

ج: وَ یَنۡصُرۡکُمۡ عَلَیۡہِمۡ: کفار کے خلاف اللہ کی نصرت و یاری حاصل ہو گی۔

د: وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ: مؤمنین کے دلوں کو ٹھنڈا کرے گا۔

ہ: وَ یُذۡہِبۡ غَیۡظَ قُلُوۡبِہِمۡ: یہ فتح و نصرت ان مؤمنین کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچائے گی جو کفار کے مظالم کی وجہ سے غم و غصے میں بھرے ہوئے تھے۔

و: وَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ: با این ہمہ توبہ کا دروازہ بند نہیں ہے۔ اگر کفر چھوڑ کر ایمان کی طرف آ جائیں تو ان کی توبہ قبول کی جائے گی۔

لطیفہ: انسان اپنے افعال میں خودمختار ہیں یا مجبور۔ اہل سنت کے ہاں دو نظریے ہیں : ایک اشعری مذہب کا جو جبر کا قائل ہے اور اہل سنت کا اکثریتی مذہب ہے، دوسرا معتزلہ کا، جو خودمختاری اور تفویض کا نظریہ رکھتا ہے۔ یہ مذہب آج کل تقریبا متروک ہو چکا ہے۔

اشعری مذہب والے اپنے نظریہ جبر پر اس آیت کے جملہ یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ سے استدلال کرتے ہیں اورکہتے ہیں : دیکھیے عذاب کو اللہ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور یہ فعل مسلمانوں کے ہاتھ سے صرف آلہ کے طور پر صادر ہو رہا ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ تمام افعال اللہ کے ہیں۔ بندے تلواروں اور نیزوں کی طرح صرف آلہ ہیں۔

امام معتزلہ جبائی نے جواب دیا ہے: اگر تمام افعال اللہ کے ہیں اور انسان صرف آلہ ہیں تو کیا یہ کہنا بھی درست ہو گا کہ اللہ مؤمنوں کو کافروں کے ہاتھوں عذاب دیتا ہے۔ اللہ کافروں کی زبان سے انبیاء کی تکذیب کرتا ہے اور ان کی زبان سے اللہ مؤمنوں پر لعنت بھیجتا ہے کیونکہ تمام افعال کا خالق تمہارے نزدیک صرف اللہ ہے۔ بندے تو تلواروں اور نیزوں کی طرح صرف آلہ ہیں۔

فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر ۱۶ : ۳ میں اس آیت کے ذیل میں اس کا یہ جواب دیا ہے جو کہ ایک لطیفہ ہے۔ کہتے ہیں :

اما الذی الزمتموہ علینا فالامر کذلک الا انا لا نقولہ باللسان ۔

اوپر کی باتیں جو ہمارے نظریے کے لیے لازم آتی ہیں ہمیں قبول ہیں کہ بات ایسی ہی ہے تاہم ان باتوں کو ہم زبان پر نہیں لاتے۔

ہم نے مقدمہ تفسیر میں ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے مصری اساتذہ کہتے ہیں کہ ہم نظریہ جبر کو سرے سے اپنے عوام کے لیے بیان نہیں کرتے۔

میں کہتا ہوں : جب خود نظریہ جبر ناقابل بیان ہے تو اس نظریے کو لازم آنے والی باتیں امام رازی کے لیے کیسے قابل بیان ہوں گی۔

امامیہ کا موقف یہ ہے کہ نہ جبر ہے، نہ تفویض۔ طاقت اللہ کی طرف سے، استعمال بندے کی طرف سے۔ امکان اللہ کی طرف سے، انتخاب بندے کی طرف سے۔ بازو اللہ کی طرف سے ہے، اس سے غرق ہونے والے کو بچانا یا یتیم کے منہ پر طمانچہ مارنا بندے کے اختیار میں ہے۔ اختیار دینے کے بعد امتحان ہوتا ہے۔ دو راستے ہوں تو اختیار ہوتا ہے۔ راستہ ایک ہی ہو تو جبر ہوتا ہے۔ جبر کے ساتھ امتحان نہیں ہو سکتا۔ تو بندے کو مکلف نہیں بنایا جا سکتا۔ ہاتھ پیر باندھ کر دریا میں پھینک دیا جائے پھر اس کو حکم دیا جائے: خبردار جسم کا کوئی حصہ بھیگ نہ جائے، نامعقول ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمنین ارادہ الٰہی کے نفاذ کا ذریعہ بنتے ہیں : یُعَذِّبۡہُمُ اللّٰہُ بِاَیۡدِیۡکُمۡ ۔۔۔۔

۲۔ اللہ کو مومن کی خوشی عزیز ہے: وَ یَشۡفِ صُدُوۡرَ قَوۡمٍ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔۔


آیات 14 - 15