بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

حٰمٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ حا، میم۔

تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ ۙ﴿۲﴾

۲۔ اس کتاب کی تنزیل بڑے غالب آنے والے، دانا اللہ کی طرف سے ہے،

غَافِرِ الذَّنۡۢبِ وَ قَابِلِ التَّوۡبِ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ۙ ذِی الطَّوۡلِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ﴿۳﴾

۳۔ جو گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا، شدید عذاب دینے والا اور بڑے فضل والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

2۔3۔ ان دو آیات میں اللہ کے بعض اسمائے مبارکہ کا ذکر ہے: الۡعَزِیۡزُ بڑا غالب آنے والا،جو کسی حال میں بھی عاجز نہیں ہے۔ الۡعَلِیۡمُ ، بڑا علم رکھنے والا۔ کائنات میں کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔ غَافِرِ الذَّنۡۢبِ ، قدرت کے باوجود گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ قَابِلِ التَّوۡبِ ، گناہ اور جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو توبہ کرنے کی صورت میں وہ قبول کرنے والا ہے۔ شَدِیۡدِ الۡعِقَابِ ، جو لوگ جرم کے ارتکاب کے بعد توبہ بھی نہیں کرتے، ان کے لیے اس کا عذاب بھی سخت ہے۔ ذِی الطَّوۡلِ بڑی عنایتوں والا۔

مَا یُجَادِلُ فِیۡۤ اٰیٰتِ اللّٰہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَلَا یَغۡرُرۡکَ تَقَلُّبُہُمۡ فِی الۡبِلَادِ﴿۴﴾

۴۔ اللہ کی آیات کے بارے میں صرف کفار ہی جھگڑتے ہیں لہٰذا ان کا شہروں میں چلنا پھرنا آپ کو دھوکے میں نہ رکھے۔

4۔ دنیا کے ممالک میں ان کی رفت و آمد اور ان کا دندناتے پھرنا نیز ان کی پر تعیش زندگی، اس مہلت کا نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ مجرموں کو سزا کے طور پر دیتا ہے کہ وہ اپنے جرم میں مزید اضافہ کریں اور ان کے عذاب میں اضافہ ہو جائے۔

کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ الۡاَحۡزَابُ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۪ وَ ہَمَّتۡ کُلُّ اُمَّۃٍۭ بِرَسُوۡلِہِمۡ لِیَاۡخُذُوۡہُ وَ جٰدَلُوۡا بِالۡبَاطِلِ لِیُدۡحِضُوۡا بِہِ الۡحَقَّ فَاَخَذۡتُہُمۡ ۟ فَکَیۡفَ کَانَ عِقَابِ﴿۵﴾

۵۔ ان سے پہلے نوح کی قوم اور ان کے بعد کے گروہوں نے بھی (انبیاء کی) تکذیب کی ہے اور ہر امت نے اپنے رسول کو گرفتار کرنے کا عزم کیا اور باطل ذرائع سے جھگڑتے رہے تاکہ اس سے حق کو زائل کر دیں تو میں نے انہیں اپنی گرفت میں لیا پس (دیکھ لو) میرا عذاب کیسا تھا۔

5۔ آیات کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیتیں اس وقت نازل ہو رہی تھیں، جب کفار مکہ حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خلاف جھگڑے اور بحثیں کر رہے تھے اور ہر طرف سے الزامات لگائے جا رہے تھے نیز آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے کی سازش میں بھی مصروف تھے۔ ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے سابقہ امتوں کی مثل پیش کی جا رہی ہے کہ ہر امت نے اپنے رسول کو پکڑنے کی کوشش کی، لیکن وہ اس میں نہ صرف کامیاب نہیں ہوئے، بلکہ وہ اللہ کی گرفت میں آ گئے اور ان کا خاتمہ عذاب الٰہی پر ہوا۔

وَ کَذٰلِکَ حَقَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنَّہُمۡ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۘ﴿ؔ۶﴾

۶۔ اور اسی طرح کفار کے بارے میں آپ کے رب کا یہ فیصلہ حتمی ہے کہ وہ اہل دوزخ ہیں۔

6۔ جس طرح سابقہ امتوں میں تکذیب کرنے والوں، مجادلہ اور جھگڑا کرنے والوں اور اپنے رسول کو قتل کرنے کی سازش کرنے والوں کو اللہ نے اپنی گرفت میں لے لیا، کَذٰلِکَ اسی طرح آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی قوم میں سے بھی ایسے لوگوں پر اللہ کا فیصلہ اٹل ہو چکا۔ حَقَّتۡ کَلِمَتُ رَبِّکَ ایک اٹل فیصلے کی خبر ہے کہ ان کا بھی وہی انجام ہو گا۔

اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ رَبَّنَا وَسِعۡتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحۡمَۃً وَّ عِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ وَ قِہِمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ﴿۷﴾

۷۔ جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے) اس کے اردگرد ہیں سب اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور اس پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے پس ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی پیروی کی ہے اور انہیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

7۔ حاملین عرش، اللہ کے مقرب فرشتے ہیں جو اہل ایمان کے لیے طلب مغفرت کرتے ہیں۔ اس سے اول تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان والے زمین سے زیادہ آسمان میں پہچانے جاتے ہیں۔ دوم یہ کہ ایمان ہی وہ رشتہ ہے جس سے عرش والے فرش والوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

رَبَّنَا وَ اَدۡخِلۡہُمۡ جَنّٰتِ عَدۡنِ ۣ الَّتِیۡ وَعَدۡتَّہُمۡ وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۙ﴿۸﴾

۸۔ ہمارے رب! انہیں ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں انہیں بھی، تو یقینا بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

8۔ ان آیات میں حاملین عرش کی دعا کے مضامین کا ذکر ہے کہ وہ مغفرت، عذاب جہنم سے نجات، اور جنت عدن میں داخل ہونے کے لیے دعا کرتے ہیں نیز مومنین کے نیک آبا و اجداد، ازواج اور اولاد کے لیے بھی دعا کرتے ہیں۔ یعنی اگر کسی مومن کا درجہ ایمان بلند ہو اور اس کے باپ، دادا، ازواج اور اولاد صالح ہوں، لیکن ایمان کے اس درجہ پر فائز نہ ہوں تو فرشتے ان کی بھی مغفرت کے لیے دعا کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا نیک اور صالح لوگوں کو نسب بھی فائدہ دیتا ہے۔

وَ قِہِمُ السَّیِّاٰتِ ؕ وَ مَنۡ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ٪﴿۹﴾

۹۔ اور انہیں برائیوں سے بچا اور جسے تو نے اس روز برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحم فرمایا اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

9۔یعنی اہل عرش مومنین کے لیے ان باتوں کی دعا کرتے ہیں جن سے مومنین کو عظیم کامیابی حاصل ہو سکے۔

وہ ہیں اور قیامت کی ہولناکیاں۔ جہاں انسان کے سارے راز فاش ہو جائیں گے۔ اہل محشر کے سامنے رسوا ہو جائیں گے۔ اپنی سیاہ کاریاں دیکھ کر حساب، پھر عذاب کا خوف۔ اس قسم کی برائیوں یا برائیوں کے نتائج سے بچانے کی دعا کرتے ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا یُنَادَوۡنَ لَمَقۡتُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ مِنۡ مَّقۡتِکُمۡ اَنۡفُسَکُمۡ اِذۡ تُدۡعَوۡنَ اِلَی الۡاِیۡمَانِ فَتَکۡفُرُوۡنَ﴿۱۰﴾

۱۰۔ جنہوں نے کفر اختیار کیا بلاشبہ انہیں پکار کر کہا جائے گا: (آج) جتنا تم اپنے آپ سے بیزار ہو رہے ہو اللہ اس سے زیادہ تم سے اس وقت بیزار تھا جب تمہیں ایمان کی طرف دعوت دی جاتی تھی اور تم کفر کرتے تھے۔

10۔ قیامت کے دن کافروں کو اپنے کفر کا نتیجہ نظر آئے گا تو وہ بڑی ندامت کے ساتھ اپنے جرائم پر اپنے آپ کو کوستے ہوں گے۔ اس وقت ندا آئے گی: آج اپنے جرائم دیکھ کر جتنا تم اپنے آپ سے بیزار ہو رہے ہو، اس سے زیادہ اللہ تم سے بیزار ہو رہا تھا، جب اللہ تمہیں اپنی طرف بلا رہا تھا اور تم کفر اختیار کر کے اللہ سے منہ موڑتے تھے۔ اللہ ہادیان برحق کے ذریعے تم پر اپنی رحمتوں کا دروازہ کھول رہا تھا، تم ان کا مزاح اڑا رہے تھے۔