آیات 7 - 9
 

اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۚ رَبَّنَا وَسِعۡتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحۡمَۃً وَّ عِلۡمًا فَاغۡفِرۡ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ وَ قِہِمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ﴿۷﴾

۷۔ جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے) اس کے اردگرد ہیں سب اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور اس پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں، ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے پس ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے توبہ کی ہے اور تیرے راستے کی پیروی کی ہے اور انہیں عذاب جہنم سے بچا لے۔

رَبَّنَا وَ اَدۡخِلۡہُمۡ جَنّٰتِ عَدۡنِ ۣ الَّتِیۡ وَعَدۡتَّہُمۡ وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ۙ﴿۸﴾

۸۔ ہمارے رب! انہیں ہمیشہ رہنے والی جنتوں میں داخل فرما جن کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور ان کے باپ دادا اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد میں سے جو نیک ہوں انہیں بھی، تو یقینا بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

وَ قِہِمُ السَّیِّاٰتِ ؕ وَ مَنۡ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَہٗ ؕ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ٪﴿۹﴾

۹۔ اور انہیں برائیوں سے بچا اور جسے تو نے اس روز برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحم فرمایا اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ: اللہ تعالیٰ کو کسی محسوس تخت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو اس وقت بھی اپنی پوری ملکوتی طاقت و قوت کے ساتھ موجود تھا جب عرش و کرسی اور کوئی چیز وجود میں نہیں آئی تھی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے فرمایا:

اِنَّ اللہَ کَانَ اِذْ لَا کَانَ فَخَلَقَ الْکَانَ وَ الْمَکَانَ۔۔۔۔ (الکافی ۱: ۴۴۱)

اللہ اس وقت بھی تھا جب ’’تھا ‘‘ بھی نہ تھا۔ پھر زمان و مکان کو خلق فرمایا۔

لہٰذا عرش الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کا تدبیری مقام ہے جس تدبیر پر کائنات کا نظام قائم ہے اور ممکن ہے حاملین عرش سے مراد وہ ملائکہ مقربین ہوں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ قرب رکھتے ہیں۔ حاملین عرش کے بارے میں تفصیل میں ہم نہیں جا سکتے اور عرش کو اٹھانے کی تعبیر سے مراد کیا ہے؟ ہمارے لیے واضح نہیں ہے۔

حاملین عرش اور عرش کے گرد فرشتے اللہ کے نہایت مقتدر فرشتے ہیں۔ مکہ کے طاغوتیوں کے مقابلے میں بے بس اور دل شکستہ مومنین کو حوصلہ دیا جا رہا ہے کہ تم رنجیدہ اور دل شکستہ نہ ہوں۔ حاملین عرش الٰہی اور عرش کے گرد و پیش رہنے والے اللہ تعالیٰ کے مقتدر ترین ملائکہ تمہارے ساتھ ہیں۔

۲۔ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ: حاملین عرش اور عرش کے گرد و پیش کے فرشتے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں۔ وہ صرف اللہ کی پرستش کرتے ہیں۔ مشرکین کو، جو فرشتوں کو اپنا معبود بناتے تھے، بتانا مقصود ہے کہ جنہیں تم معبود بناتے ہو وہ اللہ کی حمد و تسبیح کے ذریعے اللہ کی بندگی کر رہے ہیں۔

۳۔ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ: وہ اللہ کی معبودیت پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس میں بھی مشرکین کی رد ہے جو فرشتوں کو ربوبیت میں اللہ کا شریک سمجھتے ہیں۔

۴۔ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا: یہ ملائکہ اہل ایمان کے لیے طلب مغفرت کرتے اور ان کے حق میں دعا کرتے ہیں۔ اس دعا کا مضمون آیت کے اگلے جملوں میں ذکر ہو رہا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ ایمان والے، زمین سے زیادہ آسمان میں پہچانے جاتے ہیں اور ایمان ہی وہ رشتہ ہے جس سے عرش والے فرش والوں سے محبت اور ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔

۵۔ رَبَّنَا وَسِعۡتَ کُلَّ شَیۡءٍ رَّحۡمَۃً وَّ عِلۡمًا: اے ہمارے مالک! تیری رحمت اور تیرا علم کل کائنات کی ہر چیز سے وسیع تر ہے۔ آنے والے دعائیہ جملوں سے پہلے اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے حمد و ثنا ہو رہی ہے۔ جن دو صفات کا آنے والے دعا سے تعلق ہے یعنی ہم اس ذات سے دعا کر رہے ہیں جس کی نہ رحمت میں کمی ہے کہ کسی کو ملے، کسی کو نہ ملے، نہ علم میں کمی ہے کہ کسی محتاج کا علم ہو جائے اور کسی کا نہ ہو۔ ذیل میں فرش والوں کے حق میں عرش والوں کی دعا مذکور ہیں:

الف: فَاغۡفِرۡ لِلَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اتَّبَعُوۡا سَبِیۡلَکَ: اے اللہ! ان لوگوں کو بخش دے جنہوں نے کفر و شرک سے یا گناہ سے توبہ کر کے تیری راہ کو اختیار کیا ہے۔

ب: وَ قِہِمۡ عَذَابَ الۡجَحِیۡمِ: ان کی توبہ قبول کر کے ان کو معاف کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے۔

ج: رَبَّنَا وَ اَدۡخِلۡہُمۡ جَنّٰتِ عَدۡن: اے ہمارے مالک! انہیں عدن کی جنتوں میں داخل فرما جس کا تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے وعدہ فرمایا ہے۔

د: وَ مَنۡ صَلَحَ مِنۡ اٰبَآئِہِمۡ: ان مومنین کے باپ دادا کو بھی جنت عدن میں داخل فرمایا جن میں جنت جانے کی صلاحیت ہو۔ یعنی وہ مشرک اور کافر نہ مرے ہوں۔ اس صورت میں ان میں یہ صلاحیت نہیں آتی کہ وہ جنت میں داخل ہوں بلکہ وہ بھی ہیں مومن لیکن اس درجے کے نہیں ہیں جس درجے کی ان کی اولاد ہے۔ دعا یہ ہے: مالک! ان کے باپ دادوں کو بھی ان کے درجے میں لا۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ قیامت کے دن نیک اولاد کام آتی ہے۔ اس آیت سے آیۂ:

یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَتَی اللّٰہَ بِقَلۡبٍ سَلِیۡمٍ ﴿۸۹﴾ (۲۶ شعراء: ۸۸۔۸۹)

اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔ سوائے اس کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر آئے۔

کا یہ مفہوم درست ہو جاتا ہے کہ اگر قلب سلیم لے کر آئے تو مال و اولاد نفع دے سکتی ہے۔

قیامت کے دن اولاد اس جگہ کام آتی ہے جہاں اولاد کا درجہ باپ سے بالاتر ہو تو اولاد اپنے آباء و اجداد کی شفاعت کر کے انہیں اپنے درجے پر لے جائے گی۔

ھ: وَ اَزۡوَاجِہِمۡ وَ ذُرِّیّٰتِہِمۡ: ان مومنین کی ازواج و اولاد کو بھی جنت عدن میں داخل فرما، ان میں صلاحیت ہونے کی صورت میں۔ یعنی ایمان اورعمل صالح ہے لیکن اپنے شوہر اور اپنے باپ کے درجے کی نہیں ہے۔

اللہ کے مقتدر فرشتوں کی اس دعا سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیامت کے دن اولاد اپنے باپ دادا کی اور باپ دادا اپنی اولاد کی، شوہر اپنی زوجہ کی اور زوجہ اپنے شوہر کی شفاعت کر کے اپنے درجے میں ساتھ لے جا سکتی ہے۔

۲: وَ قِہِمُ السَّیِّاٰتِ: اے مالک! ان مومنین کو برائیوں سے بچا لے۔ یہاں السَّیِّاٰتِ برائیوں سے مراد گناہ بھی ہو سکتے ہیں اور گناہ کی سزائیں بھی۔ جیسے قیامت کی ہولناکیاں، جہاں انسان کے سارے راز فاش ہو جائیں گے، اہل محشر کے سامنے رسوا ہو جائیں گے، اپنی سیاہ کاریاں دیکھ کر حساب و عذاب کے ایک ناقابل تصور خوف سے دوچار ہوں گے۔ اس قسم کی تمام سیئات سے بچانے کی دعا ہے۔

۳۔ وَ مَنۡ تَقِ السَّیِّاٰتِ یَوۡمَئِذٍ فَقَدۡ رَحِمۡتَہٗ: قیامت کے دن جسے تو نے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحم فرمایا۔ اس جملے میں یَوۡمَئِذٍ ’’اس دن‘‘ قرینہ بن سکتا ہے کہ السَّیِّاٰتِ سے مراد برائیوں کی سزائیں ہیں چونکہ قیامت کے دن برائیوں کی سزا کاسامنا ہے۔

۴۔ وَ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ: جو قیامت کی ہولناکیوں سے بچتا ہے وہ ایسی عظیم، ابدی اور دائمی کامیابی حاصل کرتا ہے جس سے بڑی کامیابی قابل تصور نہیں ہے۔

اہم نکات

۱۔ دعائے ملائکہ اور شفاعت کے لیے صالح اور اہل ہونا شرط ہے۔

۲۔ قیامت کی ہولناکیوں سے نجات، ہے۔

۳۔ نیک اور صالح لوگوں کو قیامت کے دن صالح اولاد فائدہ دے سکتی ہے۔


آیات 7 - 9