وَ عَنَتِ الۡوُجُوۡہُ لِلۡحَیِّ الۡقَیُّوۡمِ ؕ وَ قَدۡ خَابَ مَنۡ حَمَلَ ظُلۡمًا﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ سب چہرے اس حی اور قیوم کے سامنے جھکے ہوئے ہوں گے اور جو کوئی ظلم کا بوجھ اٹھائے گا وہ نامراد ہو گا ۔

وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلۡمًا وَّ لَا ہَضۡمًا ﴿۱۱۲﴾

۱۱۲۔ اور جو نیک اعمال بجا لائے اور وہ مومن بھی ہو تو اسے نہ ظلم کا خوف ہو گا اور نہ حق تلفی کا ۔

112۔ وَ ہُوَ مُؤۡمِنٌ : نیکیاں ایمان کے ساتھ ہوں تو نیکیاں رہتی ہیں، غیر مومن سے صادر ہونے والا کام نیکی نہیں ہو سکتا اور اگر غیر مومن کوئی نیکی انجام دیتا ہے تو اس کا عمل کفر کی وجہ سے حبط ہو جاتا ہے۔

وَ کَذٰلِکَ اَنۡزَلۡنٰہُ قُرۡاٰنًا عَرَبِیًّا وَّ صَرَّفۡنَا فِیۡہِ مِنَ الۡوَعِیۡدِ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ اَوۡ یُحۡدِثُ لَہُمۡ ذِکۡرًا﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور اسی طرح ہم نے یہ قرآن عربی میں نازل کیا اور اس میں مختلف انداز میں تنبیہیں بیان کی ہیں کہ شاید وہ پرہیزگار بن جائیں یا (قرآن) ان کے لیے کوئی نصیحت وجود میں لائے۔

فَتَعٰلَی اللّٰہُ الۡمَلِکُ الۡحَقُّ ۚ وَ لَا تَعۡجَلۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مِنۡ قَبۡلِ اَنۡ یُّقۡضٰۤی اِلَیۡکَ وَحۡیُہٗ ۫ وَ قُلۡ رَّبِّ زِدۡنِیۡ عِلۡمًا﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ پس وہ بادشاہ حقیقی اللہ برتر ہے اور آپ پر ہونے والی اس کی وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے میں عجلت نہ کریں اور کہدیا کریں: میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔

114۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ رسالت کے ابتدائی زمانے میں نازل ہوا ہے کہ رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو وحی وصول کرنے اور قرآن اخذ کرنے کے آداب و طریقے بیان فرماتا ہے: دوران نزول وحی قرآن کو پڑھنے کی جلدی نہ کریں۔ اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ (قیامۃ:17) اسے محفوظ کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمے ہے اور سورہ اعلیٰ میں فرمایا: سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسٰٓى ۔ ہم آپ کو پڑھوا دیں گے تو آپ نہیں بھولیں گے۔ اس آیت میں فرمایا: وحی کی تکمیل سے پہلے قرآن پڑھنے کی کوشش کی جگہ مزید علم کی خواہش ہونی چاہیے۔

وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اور بتحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہیں پایا ۔

115۔ آدم علیہ السلام سے جو لغزش سرزد ہوئی تھی وہ جان بوجھ کر نہ تھی بلکہ بھول کی وجہ سے سرزد ہوئی تھی اور بھول عزم میں مضبوطی نہ ہونے کی وجہ سے سرزد ہوئی تھی۔ کیونکہ عزم اور بھول میں ربط ہے۔ کسی کام کے بارے میں عزم کمزور ہوتا ہے تو وہ کام بھول جاتا ہے۔

وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا: آدم کے لیے سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار کیا ۔

فَقُلۡنَا یٰۤـاٰدَمُ اِنَّ ہٰذَا عَدُوٌّ لَّکَ وَ لِزَوۡجِکَ فَلَا یُخۡرِجَنَّکُمَا مِنَ الۡجَنَّۃِ فَتَشۡقٰی ﴿۱۱۷﴾

۱۱۷۔ پھر ہم نے کہا :اے آدم! یہ آپ اور آپ کی زوجہ کا دشمن ہے، کہیں یہ آپ دونوں کو جنت سے نکال نہ دے پھر آپ مشقت میں پڑ جائیں گے۔

117۔ یعنی آدم و حوا کو پہلے آگاہ کر دیا گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ تم دونوں کو جنت سے نکال دیا جائے۔

اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوۡعَ فِیۡہَا وَ لَا تَعۡرٰی﴿۱۱۸﴾ۙ

۱۱۸۔ یقینا اس جنت میں آپ نہ تو بھوکے رہیں گے اور نہ ننگے۔

118۔ اس جنت کا محل وقوع جہاں بھی ہو اس کے یہ اوصاف تھے۔ وہاں خوراک و پوشاک کی کوئی کمی نہیں تھی۔ اس سے ایک نکتہ سمجھنے کا موقع ملتا ہے کہ شجرہ ممنوعہ کھانے سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم پر لباس موجود تھا۔ لہذا یہ توجیہ درست ثابت نہیں ہوتی کہ درخت کا پھل کھانے سے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنی برہنگی کا احساس ہوا، بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ درخت کا پھل کھانے سے جنت کا لباس اتر گیا۔

وَ اَنَّکَ لَا تَظۡمَؤُا فِیۡہَا وَ لَا تَضۡحٰی﴿۱۱۹﴾

۱۱۹۔ اور یقینا اس میں آپ نہ تو پیاسے رہیں گے اور نہ دھوپ کھائیں گے ۔

119۔ آدم کی نفسیات میں جو کمزوریاں تھیں ابلیس نے ان کے ذریعے حملہ کیا۔ حب بقا انسان کی کمزوری ہے۔ انسان قدرتی طور پر بقا کو پسند کرتا ہے اور موت کو ناپسند کرتا ہے۔ اسی طرح سلطنت و اقتدار کو بھی، پھر سلطنت بھی ایسی جسے زوال نہ ہو۔ اس قسم کی خواہشات کے راستے سے شیطان انسان میں وسوسہ پیدا کرتا ہے۔

فَوَسۡوَسَ اِلَیۡہِ الشَّیۡطٰنُ قَالَ یٰۤـاٰدَمُ ہَلۡ اَدُلُّکَ عَلٰی شَجَرَۃِ الۡخُلۡدِ وَ مُلۡکٍ لَّا یَبۡلٰی﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔ پھر شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا اور کہا: اے آدم! کیا میں تمہیں ہمیشگی کے درخت اور لازوال سلطنت کے بارے میں بتاؤں؟