آیت 115
 

وَ لَقَدۡ عَہِدۡنَاۤ اِلٰۤی اٰدَمَ مِنۡ قَبۡلُ فَنَسِیَ وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اور بتحقیق ہم نے اس سے پہلے آدم سے عہد لیا تھا لیکن وہ بھول گئے اور ہم نے ان میں عزم نہیں پایا ۔

تفسیر آیات

عہد سے مراد وہ نصیحت ہو سکتی ہے جس کے تحت شجر ممنوعہ کے نزدیک نہ جانے کے لیے کہا گیا تھا۔

مِنۡ قَبۡلُ: آپ یا تمام انسانوں یا تمام انبیاء سے پہلے ابتدائی انسان سے عہد لیا تھا کہ وہ جنت میں سکونت کے دوران درخت کے نزدیک نہ جائے۔

فَنَسِیَ: وہ بھول گئے۔ یہاں بھول غفلت کے معنوں میں ہے۔ چنانچہ امام علیہ السلام سے سوال ہوا کہ اللہ نے آدم سے بھول پر مواخذہ کیسے کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:

انہ لم ینس و کیف ینسی وھو یذکرہ ویقول لہ ابلیس مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ ۔ (بحار الانوار ۱۱: ۱۸۷)

وہ بھولے نہیں تھے وہ بھولتے بھی کیسے ان کو یاد دلایا گیا اور ابلیس نے ان سے کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔

وَ لَمۡ نَجِدۡ لَہٗ عَزۡمًا: عزم یعنی مضبوط ارادہ۔ ظاہر ہے غفلت، عزم میں مضبوطی نہ ہونے کی وجہ سے سرزد ہوتی ہے کیونکہ عزم اور غفلت میں ربط ہے۔ کسی کام میں عزم میں کمزوری آتی ہے تو انسان اس سے غافل ہو جاتا ہے۔


آیت 115