بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورہ ہود

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اور مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکہ میں اس وقت نازل ہوا جب رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نامساعد ترین حالات سے دو چار تھے اور مشرکین کی طرف سے طنز و آزار اور نامعقول مطالبے اور استہزاء میں اضافہ ہوا تھا۔

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر ایک باحکمت باخبر ذات کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ۔

اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾

۲۔ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں اللہ کی طرف سے تمہیں تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ﴿۳﴾

۳۔ اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو وہ تمہیں مقررہ مدت تک (دنیا میں) اچھی متاع زندگی فراہم کرے گا اور ہر احسان کوش کو اس کی احسان کوشی کا صلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

2۔3 ان دو آیتوں میں تین باتوں کا ذکر ہے: اول یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو۔ دوم یہ کہ اپنے رب سے مغفرت مانگو۔ سوم یہ کہ اپنے رب کی طرف متوجہ رہو تو دنیا کی زندگی میں بھی بہتری آئے گی، کیونکہ مذکورہ باتوں سے باطن کی تطہیر ہو جاتی ہے، انسان فطری طور پر اعتدال میں آ جاتا ہے، اس کا ضمیر مطمئن اور روح پرسکون ہو جاتی ہے نیز اس کے اعصاب میں توازن آ جاتا ہے۔ اس طرح دنیاوی زندگی سدھر جاتی ہے۔

یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ دینداری غربت و افلاس کا دوسرا نام ہے اور صاحب دولت ہونے کا مطلب بے دینی ہے۔ دین کی سمجھ رکھنے والے مومن کو دنیا و آخرت دونوں کی سعاوتیں میسر آ جاتی ہیں۔

اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

اَلَاۤ اِنَّہُمۡ یَثۡنُوۡنَ صُدُوۡرَہُمۡ لِیَسۡتَخۡفُوۡا مِنۡہُ ؕ اَلَا حِیۡنَ یَسۡتَغۡشُوۡنَ ثِیَابَہُمۡ ۙ یَعۡلَمُ مَا یُسِرُّوۡنَ وَ مَا یُعۡلِنُوۡنَ ۚ اِنَّہٗ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۵﴾

۵۔ آگاہ رہو! یہ لوگ اپنے سینوں کو لپیٹ لیتے ہیں تاکہ اللہ سے چھپائیں، یاد رکھو! جب یہ اپنے کپڑوں سے ڈھانپتے ہیں تب بھی وہ ان کی علانیہ اور پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے، وہ سینوں کی باتوں سے یقینا خوب واقف ہے۔

5۔ شان نزول میں روایت ہے کہ مشرکین جب خانہ کعبہ کے گرد رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک سے گزرتے تو سر اور پشت جھکا کر اور کپڑے سے سر ڈھانپ کر گزرتے تھے کہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نگاہ ان پر نہ پڑے۔

وَ مَا مِنۡ دَآبَّۃٍ فِی الۡاَرۡضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزۡقُہَا وَ یَعۡلَمُ مُسۡتَقَرَّہَا وَ مُسۡتَوۡدَعَہَا ؕ کُلٌّ فِیۡ کِتٰبٍ مُّبِیۡنٍ﴿۶﴾

۶۔ اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور وہ جانتا ہے کہ اس کی جائے قرار کہاں ہے اور عارضی جگہ کہاں ہے، سب کچھ روشن کتاب میں موجود ہے۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ وَّ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ لَئِنۡ قُلۡتَ اِنَّکُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَیَقُوۡلَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِنۡ ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷﴾

۷۔ اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں بنایا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں بہتر عمل کرنے والا کون ہے اور (اے نبی) اگر آپ (لوگوں) سے یہ کہدیں کہ تم مرنے کے بعد اٹھائے جاؤ گے تو کافر ضرور کہیں گے: یہ تو محض کھلا جادو ہے۔

7۔ اللہ کی سلطنت پانی پر تھی۔ پانی سے مراد یہی پانی ہو سکتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا۔ وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ (انبیاء : 30) اور تمام زندہ چیزوں کو ہم نے پانی سے بنایا ہے۔ ان دو آیتوں سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ کی سلطنت پانی پر تھی اور پانی مایۂ حیات اور تمام زندہ موجودات کا مادئہ مشترکہ ہے۔ لیکن ہم اس پانی کی تفصیل میں اس سے زیادہ نہیں جا سکتے کہ پانی سے مراد مائع مذاب ہے یا گیس یا سوڈیم یا ہوا ہے؟ ایسے غیبی موضوعات میں صریح نص کے بغیر اظہار خیال کرنا درست نہیں ہے۔

اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حسین کائنات کی غرضِ خلقت حسن عمل ہے۔ لہٰذا جو ہستی حسن عمل میں سب سے افضل ہے، وہی مقصد خلقت میں سب سے نمایاں ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے بعد پڑھیے: لولاک لما خلقت الافلاک ۔ (بحار الانوار 16:405)

وَ لَئِنۡ اَخَّرۡنَا عَنۡہُمُ الۡعَذَابَ اِلٰۤی اُمَّۃٍ مَّعۡدُوۡدَۃٍ لَّیَقُوۡلُنَّ مَا یَحۡبِسُہٗ ؕ اَلَا یَوۡمَ یَاۡتِیۡہِمۡ لَیۡسَ مَصۡرُوۡفًا عَنۡہُمۡ وَ حَاقَ بِہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ٪﴿۸﴾

۸۔ اور اگر ہم ایک مقررہ مدت تک ان سے عذاب کو ٹال دیں تو وہ ضرور کہنے لگتے ہیں: اسے کس چیز نے روک رکھا ہے؟ آگاہ رہو! جس دن ان پر عذاب واقع ہو گا تو ان سے ٹالا نہیں جائے گا اور جس چیز کا وہ مذاق اڑا رہے ہیں وہی انہیں گھیر لے گی۔

8۔ قرآن کی متعدد آیات سے مشرکین کو اس بات کی دھمکی مل چکی تھی کہ اگر وہ یہ تکذیبی عمل جاری رکھیں گے تو ان پر عذاب نازل ہونے والا ہے۔ مشرکین نے اس کے جواب میں نہایت تحقیر آمیز لہجے میں کہا: تو وہ آنے والا عذاب آتا کیوں نہیں ہے، کس چیز نے اسے روک رکھا ہے۔ ہم اپنے کفر پر ڈٹے ہوئے ہیں اور تکذیبی عمل جاری رکھ ہوئے ہیں تو وہ عذاب آتا کیوں نہیں؟ جواب میں فرمایا: جب وہ عذاب آئے گا تو تم اس چیز کے گھیرے میں آؤ گے جس کا تم استہزاء کر رہے ہو۔ عذاب کی تاخیر میں جو حکمت پوشیدہ ہے اس کا پہلے کئی بار ذکر ہو چکا ہے۔

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ مِنَّا رَحۡمَۃً ثُمَّ نَزَعۡنٰہَا مِنۡہُ ۚ اِنَّہٗ لَیَـُٔوۡسٌ کَفُوۡرٌ﴿۹﴾

۹۔ اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد وہ نعمت اس سے چھین لیں تو بیشک وہ ناامید اور ناشکرا ہو جاتا ہے۔

وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ نَعۡمَآءَ بَعۡدَ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ذَہَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیۡ ؕ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوۡرٌ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور اگر ہم اسے تکلیفوں کے بعد نعمتوں سے نوازتے ہیں تو ضرور کہ اٹھتا ہے: سارے دکھ مجھ سے دور ہو گئے،بیشک وہ خوب خوشیاں منانے اور اکڑنے لگتا ہے

9۔10 انسان کی جلد بازی، کم ظرفی اور متلون مزاجی کی بات ہے کہ جب نعمتیں چھن جاتی ہیں تو یہ تنگ نظر انسان خیال کرتا ہے کہ اب اس نے آنا ہی نہیں اور وہ یوں مایوس ہو جاتا ہے اور جب نعمتیں وافر ہو جاتی ہیں تو خیال کرتا ہے کہ اب اس نے جانا ہی نہیں اور اس خوشی میں مغرور ہو جاتا ہے۔ اس کی کوتاہ نظر صرف حال حاضر پر لگی رہتی ہے۔ اسی کو ساری دنیا تصور کرتا ہے۔ نہ ان نعمتوں کے سرچشمہ پر نظر ہے کہ مایوس نہ ہو اور نہ ہی ان نعمتوں کے حقیقی مالک کی معرفت ہے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھ کر اکڑ نہ جائے۔