آیات 1 - 2
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ ھود

یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا اور مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورہ مکہ میں اس وقت نازل ہوا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت نامساعد حالات سے دوچار تھے۔ مشرکین کی طرف سے طنز و آزار، نامعقول مطالبے اور استہزاء میں اضافہ ہوا تھا۔ اس آیت سے ایک عندیہ ملتا ہے:

فَلَعَلَّکَ تَارِکٌۢ بَعۡضَ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ ضَآئِقٌۢ بِہٖ صَدۡرُکَ اَنۡ یَّقُوۡلُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ کَنۡزٌ اَوۡ جَآءَ مَعَہٗ مَلَکٌ ۔۔۔۔ (۱۱ ھود: ۱۲)

آپ کی طرف جو وحی کی گئی ہے شاید آپ اس کا کچھ حصہ چھوڑنے والے ہیں اور ان کی اس بات پر دل تنگ ہو رہے ہیں کہ اس پر خزانہ کیوں نازل نہیں ہوا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں آیا۔۔۔؟

حضرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکہ میں دشوار ترین اور مصائب و آلام سے پر زندگی حضرت ابو طالب اور حضرت خدیجۃ الکبری علیہما السلام کی وفات کے بعد گزارنا پڑی۔ حضرت ابو طالبؑ کی زندگی میں قریش آپؐ کے خلاف براہ راست جسارت نہیں کر سکتے تھے، حضرت ابو طالب کے بعد تو قریش کے باؤلے بھی حضورؐ کے سر مبارک پر مٹی پھینکنے کی جسارت کرنے لگے۔ اس لیے اس سورہ میں تاریخ انبیاء بیان کرتے ہوئے اس پہلو کو نمایاں کر دیا کہ بالآخر دعوت ابنیاء کو ہی کامیابی حاصل رہی اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا انجام برا ہوا۔ چنانچہ تاریخ انبیاء بیان کرنے کے بعد فرمایا:

وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۔۔۔۔(۱۱ ھود: ۱۲۰)

ہم پیغمبروں کے وہ تمام حالات آپ کو بتاتے ہیں جن سے ہم آپ کو ثبات قلب دیتے ہیں۔۔۔۔

دیگر سورہ ہائے مکی کی طرح اس سورۃ کا مضمون بھی توحید کی دعوت ہے اور اس پر بہت پر زور دیا گیا ہے۔ حتیٰ تاریخ انبیاء بیان کرتے ہوئے تمام انبیاء کی دعوت کو ان جملوں میں خلاصہ کیا گیا:

یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ۔ (۱۱ ھود: ۵۰)

اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو،اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔۔۔۔

دوسرا موضوع جس پر تاریخ انبیاء کے ضمن میں زور دیا گیا ہے وہ اس بات پر تنبیہ ہے کہ گزشتہ تکذیبی قوموں کی طرح تمہارا بھی انجام بہت برا ہو گا۔ اللہ تمہیں نابود کر کے تمہاری جگہ ایک اور قوم پیدا کرے گا۔ تکذیبی عناصر خواہ انبیاء کے قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ، اس مکافات عمل سے نہیں بچ سکتے۔ اس سلسلے میں نوح علیہ السلام کے بیٹے کا خاص کر ذکر فرمایا۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾

۱۔ الف لام را، یہ وہ کتاب ہے جس کی آیات مستحکم کی گئی ہیں پھر ایک باحکمت باخبر ذات کی طرف سے تفصیل سے بیان کی گئی ہیں ۔

اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ اِنَّنِیۡ لَکُمۡ مِّنۡہُ نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ ۙ﴿۲﴾

۲۔ کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، میں اللہ کی طرف سے تمہیں تنبیہ کرنے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

تفسیر آیات

۱۔ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ: یہ وہ کتاب وحی ہے جس کی آیتوں میں کسی قسم کی کمزوری نہیں ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے اس کی آیات کا حق اور امر واقع سے کوئی فاصلہ نہیں ہے۔ یہ عین حقیقت کے بیان کی متکفل ہیں۔ مضمون کے اعتبار سے یہ کتاب ایک جامع نظام حیات، ایک معبود، ایک دین اور اخلاقیات کے ایک انسان ساز دستور کی طرف بلاتی ہے۔ مضامین میں اس قدر استحکام ہے کہ مختلف ادوار کی تاریخ ہو یا انبیاء کی دعوت کا ذکر ہو، منکرین کی تنبیہ ہو یا نصیحت یا بیان احکام ہو، اجمال کا مقام ہو یا تفصیل کا سب کا محور ایک، نقطۂ آغاز و انجام ایک، ہدف ایک اور منزل ایک ہے۔ وہ یہ کہ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ.. اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔

۲۔ ثُمَّ فُصِّلَتۡ: اس کتاب میں کوئی پیچیدگی ہے نہ کوئی ابہام ہے۔ مطالب کو کھول کر پوری وضاحت ، روشن مثالوں اور تاریخی واقعات کے شواہد کے ساتھ عام فہم صریح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے۔ جو ایک عام انسان کے لیے بھی قابل فہم ہیں۔ علماء کے لیے بھی اس میں تحقیقات کی کافی گنجائش ہے اور شاید علم و آگہی کی ترقی و پیشرفت کے ساتھ ساتھ اس کتاب کی تفصیل میں بھی اضافہ ہو جائے۔ ممکن ہے ثُمَّ فُصِّلَتۡ سنت رسولؐ کی طرف اشارہ ہو۔ چونکہ قرآنی کلیات کی تفصیل سنت کے ذمے ہے۔

۳۔ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا: یہ کتاب جس کی آیات محکم اور مفصل ہیں درج ذیل باتوں کی طرف دعوت دیتی ہے:

پہلی بات یہ کہ صرف اللہ کی بندگی کی جائے جو اس کتاب کے مضامین میں سب اہم مضمون ہے کہ بندگی میں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائے۔

اہم نکات

۱۔ توحید عبادت و ربوبیت قرآنی دعوت کا مرکزی نقطہ ہے: اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ۔۔۔۔


آیات 1 - 2