آیات 3 - 4
 

وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ؕ وَ اِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنِّیۡۤ اَخَافُ عَلَیۡکُمۡ عَذَابَ یَوۡمٍ کَبِیۡرٍ﴿۳﴾

۳۔ اور یہ کہ اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر اس کے آگے توبہ کرو وہ تمہیں مقررہ مدت تک (دنیا میں) اچھی متاع زندگی فراہم کرے گا اور ہر احسان کوش کو اس کی احسان کوشی کا صلہ دے گا اور اگر تم نے منہ پھیر لیا تو مجھے تمہارے بارے میں ایک بڑے دن کے عذاب کا خوف ہے۔

اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ ۚ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ﴿۴﴾

۴۔ تم سب کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔

تفسیر آیات

۱۔ وَّ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ: دوسری بات یہ ہے کہ اپنے رب کے حضور استغفار کرو۔ اپنی تقصیروں کا اعتراف کر کے اللہ سے معافی مانگنا بندگی کی بنیاد ہے۔

۲۔ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا: تیسری بات یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کرے۔ توبہ سے گناہ دھل جاتے ہیں۔ ابی جعفر علیہ السلام سے روایت ہے:

التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ ۔ (الکافی ۲: ۴۳۵)

گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ اس نے گناہ کیا ہی نہیں ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

لا صغیرۃ مع الاصرار ولا کبیرۃ مع الاستغفار ۔ (الکافی۲: ۲۸۸)

گناہ تکراراً بجا لانے سے صغیرہ نہیں رہتا اور استغفار کے ساتھ گناہ کبیرہ نہیں رہتا۔

پیغمبر اکرمؐ سے روایت ہے:

خیر العبادۃ الاستغفار ۔۔۔۔ ( الکافی۲:۵۱۷)

بہترین عبادت استغفار ہے۔

ایمان کے ساتھ اور مغفرت کے لیے درگاہ الٰہی میں راز و نیاز سے توبہ کے ذریعے تطہیر باطن سے انسان فطرتی طور پر اعتدال میں آ جاتا ہے۔ اس کا ضمیر مطمئن، اس کی روح پرسکون، اس کے اعصاب میں توازن ہوتا ہے۔

فَمَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یَّہۡدِیَہٗ یَشۡرَحۡ صَدۡرَہٗ لِلۡاِسۡلَامِ ۚ وَ مَنۡ یُّرِدۡ اَنۡ یُّضِلَّہٗ یَجۡعَلۡ صَدۡرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآءِ ؕ کَذٰلِکَ یَجۡعَلُ اللّٰہُ الرِّجۡسَ عَلَی الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿﴾ (۶ انعام : ۱۲۵)

پس جسے اللہ ہدایت بخشنا چاہتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے اور جسے گمراہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو ایسا تنگ گھٹا ہوا کر دیتا ہے گویا وہ آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو، ایمان نہ لانے والوں پر اللہ اس طرح ناپاکی مسلط کرتا ہے۔

یعنی جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا اس کے لیے ایک دشوار زندگی ملے گی۔

۳۔ یُمَتِّعۡکُمۡ مَّتَاعًا حَسَنًا: اس آیت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان و عمل صالح سے نہ صرف یہ کہ آخرت کی زندگی سدہرتی ہے، دنیوی زندگی میں بھی بہتری آ جاتی ہے۔ یہ نظریہ بالکل غلط ہے کہ دینداری غربت و افلاس کا دوسرا نام ہے اور دنیاداری کا مطلب بے دینی ہے۔ البتہ جہاں دنیاداری دین سے متصادم ہو تو یہ بات درست ہے ورنہ مؤمن کے لیے دنیا و آخرت دونوں کی سعادتیں میسر آ جاتی ہیں۔

۴۔ وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ: ایمان اور تقویٰ کے درجات ہیں۔ ایک کا ایمان اور تقویٰ دوسرے سے افضل اور بالاتر ہوتا ہے۔ ایمان اور تقویٰ میں جو صاحب فضیلت ہے اسے اس درجے کے مطابق اجر و منزلت دی جائے گی۔ ہرشخص کو اس کے ایمانی اور تقوائی مقام کے مطابق درجہ دیا جائے گا۔ کسی کا ذرہ برابر عمل ضائع نہیں جائے گا۔

حاکم حسکانی نے شواھد التنزیل میں ذیل آیت روایت کی ہے: وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ۔۔۔۔ حضرت علی علیہ السلام کی شان میں ہے۔ یہی روایت ابن مردویہ نے بھی بیان کی ہے۔ ملاحظہ ہو کشف الغمۃ ۱: ۳۱۷۔

اہم نکات

۱۔ دعا اور تقویٰ و طہارت سے دنیا کی زندگی بھی سدھر جاتی ہے: مَّتَاعًا حَسَنًا ۔۔۔۔

۲۔ ہر مؤمن کو چاہیے کہ وہ آخرت میں اپنا درجہ بلند کرنے کی اس دنیا میں کوشش کرے۔

۳۔ عمل کے اعتبار سے انسانوں میں امتیاز آجاتا ہے: وَّ یُؤۡتِ کُلَّ ذِیۡ فَضۡلٍ فَضۡلَہٗ ۔۔۔۔


آیات 3 - 4