آیت 123
 

وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ مُجۡرِمِیۡہَا لِیَمۡکُرُوۡا فِیۡہَا ؕ وَ مَا یَمۡکُرُوۡنَ اِلَّا بِاَنۡفُسِہِمۡ وَ مَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۱۲۳﴾

۱۲۳۔ اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں وہاں کے بڑے بڑے مجرموں کو پیدا کیا کہ وہاں پر (برے) منصوبے بناتے رہیں (درحقیقت) وہ غیر شعوری طور پر اپنے ہی خلاف منصوبے بناتے ہیں۔

تفسیر آیات

جَعَلۡنَا فِیۡ کُلِّ قَرۡیَۃٍ اَکٰبِرَ: ہم نے یہ کام کیا کہ مجرموں کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا۔ جَعَلۡنَا کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے جو نظام ترتیب دیا ہے، اس میں حق اور باطل، دونوں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسی کو جَعَلۡنَا فرمایا ہے کہ جس طرح ہم نے بعض کو زندگی اور روشنی بخشی اور بعض کو اندھیرے میں رکھا، اسی طرح ہم نے ہر بستی، ہر شہر میں بڑے بڑے مجرموں کو پیدا کیا۔ یعنی یہ لوگ ان شہروں کے بڑے لوگ ہوتے تھے، جو مجرم ہوتے تھے کیونکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت ہمیشہ ان لوگوں کے مفادات کے خلاف ہوتی ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت ظلم و استحصال کے خلاف ہوتی ہے اور یہ لوگ ظالم ہوتے ہیں اور غریب عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ انبیاء (ع) عدل و انصاف کی دعوت دیتے ہیں اور عدل و انصاف سے ہمیشہ ظالم و جابر متاثر ہوتے ہیں اور غریبوں کے فائدے میں ہوتا ہے۔ انبیاء علیہم السلام انسانوں کو احترام آدمیت اور انسانی حقوق دلانے کے لیے آتے ہیں۔ ان باتوں سے علاقے کے سرداران کی حاکمیت اعلیٰ متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے وہ اس الٰہی دعوت کے خلاف سازشوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس دعوت کو پھیلنے سے روکنے کے لیے طرح طرح کے مکر و فریب کرتے ہیں۔ جیسے ارشاد ہوا :

وَ اِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰہَا تَدۡمِیۡرًا (۱۷ اسراء : ۱۶)

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالناچاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں، تب اس بستی پر فیصلہ عذاب لازم ہو جاتا ہے پھر ہم اسے پوری طرح تباہ کر دیتے ہیں۔

دوسری جگہ فرمایا :

۔۔۔ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ مَوۡقُوۡفُوۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ۚۖ یَرۡجِعُ بَعۡضُہُمۡ اِلٰی بَعۡضِۣ الۡقَوۡلَ ۚ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اسۡتُضۡعِفُوۡا لِلَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا لَوۡ لَاۤ اَنۡتُمۡ لَکُنَّا مُؤۡمِنِیۡنَ ۔ (۳۴ سباء: ۳۱)

اور کاش آپ ان کا وہ حال دیکھ لیتے جب یہ ظالم اپنے رب کے سامنے کھڑے کیے جائیں گے اور ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہوں گے، (چنانچہ) جو لوگ دبے ہوئے ہوتے تھے، وہ بڑا بننے والوں سے کہیں گے: اگر تم نہ ہوتے تو ہم مؤمن ہوتے۔

تاریخ میں آیا ہے کہ ابوجہل نے کہا: عبد مناف کی اولاد نے شرافت میں ہمارا مقابلہ کیا، جب ہمارا مقابلہ برابر رہا تو ان لوگوں نے کہا: ہمارے درمیان نبی آیا ہے، اس پر وحی ہوتی ہے۔ ہم اسے ہرگز نہیں مانیں گے، جب تک خود ہم پر بھی وحی نازل نہیں ہوتی۔

یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ مکہ کے بڑے سرداروں کی طرف سے سازش، ظلم، دھوکہ دہی اور اذیت دینے جیسے جرائم کا ارتکاب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر بستی، ہر شہر اور ہر امت کے ساتھ یہی ہوتا رہا ہے۔ یہ الٰہی دعوت کا ایک لازمہ ہے کہ ہر موسیٰ کے مقابلے میں ایک فرعون اور ہر شبیر کے مقابلے میں ایک یزید ہوا کرتا ہے، اس طرح دعوت الی الحق کو مقام ملتا ہے،عند اللّٰہ اہمیت بڑھتی ہے اور امتحان و آزمائش کی شرائط پوری ہو جاتی ہیں اور حکمت الٰہی کے تقاضے پورے ہو جاتے ہیں۔

اہم نکات

۱۔ بیشتر رئیسوں اور سرداروں کی طرف سے اصلاحی تحریک کی مخالفت ہوتی ہے۔

۲۔ مکرو فریب کرنے والے اپنی چالوں کے وبال میں خود پھنس جاتے ہیں۔ وَ مَا یَمۡکُرُوۡنَ اِلَّا بِاَنۡفُسِہِمۡ ۔۔۔۔

۳۔ قوم کا زوال اس وقت ضرور ہوتا ہے جب اس کے مقدرات چند خوشحال خاندانوں کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔


آیت 123