آیات 126 - 127
 

وَ ہٰذَا صِرَاطُ رَبِّکَ مُسۡتَقِیۡمًا ؕ قَدۡ فَصَّلۡنَا الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ﴿۱۲۶﴾

۱۲۶۔ اور یہ آپ کے رب کا سیدھا راستہ ہے، ہم نے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے نشانیاں واضح کر دی ہیں۔

لَہُمۡ دَارُ السَّلٰمِ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ ہُوَ وَلِیُّہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۷﴾

۱۲۷۔ ان کے رب کے ہاں ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے اور ان کے اعمال کے عوض وہی ان کا کارساز ہے۔

تفسیر آیات

یہ اسلام، جس کے لیے مؤمن کا سینہ کشادہ اور غیر مؤمن کا سینہ تنگ ہوتا ہے، صراط مستقیم ہے۔ اللہ کی آیات میں غور و فکر وہی لوگ کریں گے جن کے سینے میں ظرفیت ہو۔

روز آخرت اللہ کے امن و سلامتی کے گھر جنت میں یہی لوگ ہوں گے اور اللہ ہی ان کا ولی ہو گا۔ وہاں کسی اور کی حکومت نہیں چلے گی۔

۱۔ صِرَاطُ رَبِّکَ: اپنے رَبْ تک پہنچنے کا راستہ۔ چونکہ تمام مقاصد کا مقصد اعلیٰ رَب تک پہنچنا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ (۸۴ انشقاق : ۶)

اے انسان! تو مشقت اٹھا کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہے، پھر اس سے ملنے والا ہے۔

۲۔ مُسۡتَقِیۡمًا: یہی سیدھا راستہ ہے۔ اسلام دو میں سے ایک حل نہیں، واحد حل ہے۔ دو میں سے ایک راستہ نہیں، واحد راہ مستقیم ہے۔

۳۔ لَہُمۡ دَارُ السَّلٰمِ: جو لوگ قرآن سے نصیحت حاصل کرتے ہیں، ان کے لیے دَارُ السَّلٰمِ ہے۔ یعنی جنت یا ہر قسم کی آفت سے سلامتی ہے۔

۴۔ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ: ان کا رب اس کی ضمانت دیتا ہے۔ چونکہ وَ ہُوَ وَلِیُّہُمۡ بما کانوا یعملون وہی ان کے امور کا متولی اور صاحب اختیار ہے۔ ان کے اعمال کا معاوضہ صرف وہی دے سکتا ہے۔ یہ اللہ کی ولایت مطلقہ کا تقاضا ہے۔

اہم نکات

۱۔ عقل و تدبر سے ہی صراط مستقیم اور امن و سلامتی حاصل ہو سکتی ہے۔


آیات 126 - 127