آیت 122
 

اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا فَاَحۡیَیۡنٰہُ وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا یَّمۡشِیۡ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنۡ مَّثَلُہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیۡسَ بِخَارِجٍ مِّنۡہَا ؕ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۲۲﴾

۱۲۲۔ کیا وہ شخص جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندہ کر دیا اور ہم نے اسے روشنی بخشی جس کی بدولت وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پھنسا ہوا ہو اور اس سے نکل نہ سکتا ہو؟ یوں کافروں کے لیے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیے گئے ہیں۔

شان نزول

اس آیت کے شان نزول میں روایت ہے کہ حضرت حمزہ ؓکے ایمان قبول کرنے اور ابوجہل کے کفر پر برقرار رہنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ عمار بن یاسر کے ایمان اور ابو جہل کے کفر کے بارے میں ہے لیکن سورہ انعام کے یک بارگی نازل ہونے کی صورت میں شانِ نزول کی روایت قابل اعتبار نہیں رہتی۔ البتہ ان روایات کا مقصد، مذکورہ موارد میں اس آیت کے مفہوم کی تطبیق، ہو سکتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اَوَ مَنۡ کَانَ مَیۡتًا: ہر شخص کی موت و حیات اس سے متوقع آثار و نتائج سے مربوط ہوتی ہے۔ ایک باپ کی فرزند سے امید بر آئے تو وہ اس کے لیے زندہ ہے، ایک بھائی کی بھائی سے وابستہ توقعات پوری ہو جائیں تو وہ اس کے لیے زندہ ہے، ایک زمین سے متوقع فصل حاصل ہو جائے تو وہ زمین زندہ اور آباد ہے۔ دوسرے لفظوں میں جو مال جس مصرف کے لیے ہے اس میں صرف ہو جائے تو اس مال کو دوام ملتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس انسان کو ایک اعلیٰ غرض کے لیے خلق کیا ہے۔ اگر انسان اس غرض تخلیق میں صرف ہو جائے تو وہ زندہ ہے اور وہ غرض تخلیق یہ ہے کہ انسان اس دنیاوی زندگی کو اپنی ابدی زندگی کے لیے صرف کرے۔ اس وقتی زندگی کا مصرف ابدی زندگی کا حصول ہے تو جس کی زندگی ابدی زندگی کے حصول میں صرف ہو گئی تو اس کو زندہ تصور کیا جائے گا، ورنہ وہ مردہ شمار ہو گا ۔ چنانچہ حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی تسخیر کے لیے پیدا کیا، پس اگر حیوانات انسان کے لیے مسخر ہیں تو ان کا مقصد حیات پورا ہو جاتا ہے لیکن اگر انسان اپنی غرض تخلیق کو پورا نہ کرے تو وہ حیوانات سے بھی بدتر ہو جاتا ہے: اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ۔۔۔۔ (۷ اعراف: ۱۷۹)

جو شخص اللہ کی عطا کردہ حیات سے زندہ ہو جاتا ہے اور اپنی غرض تخلیق کے راستے پر چل پڑتا ہے، اسے روشنی میسر آتی ہے اور اس روشنی میں وہ اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے: وَ جَعَلۡنَا لَہٗ نُوۡرًا ۔۔۔۔۔

جب کہ جو شخص اس حیات سے اپنے لیے زندگی حاصل نہیں کرتا، وہ تاریکی میں راہ گم کر دیتا ہے۔

یہاں مردہ سے مراد کفر، حیات سے مراد ایمان اور روشنی سے مراد اعمال صالحہ ہو سکتے ہیں۔ اندھیرے سے بھی مراد کفر ہے، لہٰذا مومن ہی حقیقی زندگی سے سرشار ہے کیونکہ زندگی کے آثار مؤمن میں موجود ہیں۔ مؤمن حق و باطل، خیر و شر اور عدل و ظلم میں تمیز کرتا ہے اور مہلکہ سے نکلنے کا راستہ بھی جانتا ہے:

۔۔۔ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا (۶۵ طلاق: ۲)

اور جو اللہ سے ڈرتا رہے اللہ اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے۔

اس کے برخلاف کافر زندگی کے آثار نہیں رکھتا، نہ اسے حق و باطل، خوب و بد کی تمیز ہے اور نہ ہی اسے مہلکہ سے نکلنے کا راستہ ملتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ مؤمن اللہ کے نور سے چلتا ہے۔

۲۔ مؤمن کو مہلکہ سے نکلنے کا راستہ مل جاتا ہے۔


آیت 122