آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ انعام

قرآن تدریجاً قلب رسولؐ پر نازل ہوا ہے، سوائے اس سورہ کے جو بیک وقت نازل ہوا۔ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوا۔ بروایت ابن عباس چھ آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔ دیگر روایات کے مطابق تین آیات مدینہ میں نازل ہوئیں۔

ابی بن کعب کی روایت کے مطابق یہ سورہ ایک ہی رات میں جب بیک وقت نازل ہوا توستر ہزار فرشتے تسبیح و تحمید کے ساتھ اس کی مشایعت کر رہے تھے۔

مکی زندگی میں بھی تدوین قرآن کے اہتمام کا یہ عالم تھا کہ جس رات یہ سورہ نازل ہوا، اسی رات حضور (ص) نے اسے قلمبند کرا دیا۔

شان نزول: جس ماحول میں یہ سورہ نازل ہوا ہے، اسے ذہن نشین کرنے سے اس سورہ کے مضامین کا سمجھنا آسان ہو جائے گا۔

یہ سورہ مکی زندگی کے تقریباً اواخر میں نازل ہوا۔ اس وقت اسلام کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور اس دعوت کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ مشرکین کی طرف سے مخالفت اور ستم گری بھی انتہائی درجہ کو پہنچ گئی۔ خصوصاً حضرت ابوطالبؑ اور حضرت خدیجہ (س) کی وفات کے بعد کفار مکہ کی طرف سے ظلم و ستم میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔ لوگ حضور (ص) کا تمسخر اڑاتے اور مختلف حربوں سے حضور (ص) کی شان میں گستاخیاں کرتے تھے۔ اس سورہ میں ان تمسخروں کی طرف اشارہ موجود ہے: وَ لَقَدِ اسۡتُہۡزِیٴَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ ۔۔۔۔ (آیت ۱۰) آپ (ص) سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر کیا گیا۔ مشرکین کی طرف سے دی جانے والی اذیتوں کا اندازہ اس آیت سے ہو جاتا ہے: قَدۡ نَعۡلَمُ اِنَّہٗ لَیَحۡزُنُکَ الَّذِیۡ یَقُوۡلُوۡنَ ۔۔۔۔ (آیت ۳۳) ہمیں علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کو رنج پہنچتا ہے۔ آپ (ص) ہر قسم کے مادی سہارے سے بھی محروم تھے اور اسلام قبول کرنے والوں کو بھی جب طرح طرح کی اذیتوں کا نشانہ بنایا جاتا تو اس کی سب سے زیادہ تکلیف بھی آپ (ص) ہی کو محسوس ہوتی تھی اور ایک طویل جہاد کے باوجود خاطر خواہ نتیجہ نہ ملنے کی وجہ سے لوگوں پر یاس و ناامیدی کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ سورہ اسی قسم کی مشکلات کی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ گزشتہ امتوں نے بھی کامیابی آسانی سے حاصل نہیں کی۔سنۃ الاولین یہ ہے کہ فَصَبَرُوۡا عَلٰی مَا کُذِّبُوۡا وَ اُوۡذُوۡا حَتّٰۤی اَتٰہُمۡ نَصۡرُنَا ۔۔۔۔ (۶ انعام ۳۴) اور تکذیب و ایذا پر صبر کر تے رہے ہیں یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ البتہ ایک امید افزا بات یہ تھی کہ یثرب کے اوس اور خزرج کے بڑے بارسوخ افراد نے رسول (ص) کے ہاتھ پر بیعت کی جو بیعت عقبۃ کے نام سے مشہور ہے اور یثرب میں کسی مزاحمت کے بغیر اسلام پھیل رہا تھا۔

مضامین: ان حالات میں نازل ہونے والے سورہ کے سامنے سب سے اہم مسئلہ عقیدے کا تھا کہ جو تمام مسائل کی بنیاد ہے اور مشرکین کے ساتھ اصل جنگ شرک و توحید کی تھی۔ اس مقدس جنگ میں حضور (ص) کی طرف سے یہ نعرہ بلند ہوتا تھا: قولوا لا الٰہ الا اللہ تفلحوا ۔ عام حالات میں بھی کسی کے عقیدہ کے خلاف جدید نظریہ قائم کرنا اور اس کو منوانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن عرب جاہلیت کا مقابلہ تو نہایت ہی مشکل عمل تھا۔ اسلامی نظریہ توحید کو پیش کرتے ہوئے قرآن آفاق و انفس میں موجود اللہ کی نشانیوں میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے اور مخاطب انسان ہے۔ انسان کی فکر، سوچ، اس کے مضمرات، اس کی جبلت، اس کی انسانیت، اس کا وجدان اور اس کا ضمیر قرآن کا مخاطب ہے۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ ۬ؕ ثُمَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ ﴿۱﴾

۱۔ ثنائے کامل اللہ کے لیے ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تاریکیوں اور روشنی کو بنایا، پھر بھی یہ کافر (دوسرے دیوتاؤں کو) اپنے رب کے برابر لاتے ہیں۔

تفسیر آیات

اللہ اپنی حمد و ستائش خود بیان فرماتا ہے کہ حمد و ثنا کی حقیقت بس اللہ کے لیے ہے، ورنہ بندہ نہیں جان سکتا کہ اللہ کی حمد کس طرح ہونی چاہیے۔ اس کے بعد موجب حمد ہونے کے اسباب و صفات میں سے دو صفات بیان ہوئی ہیں: خلق اور جعل کی صفات۔ چنانچہ خلق ایجاد کو کہتے ہیں اورجعل قرار دینے کو کہتے ہیں۔

نور اور ظلمت ایک دوسرے کے ساتھ مفہوم پیدا کرتے ہیں کہ نور نہ ہونے کا نام ظلمت ہے۔ نور کی تعریف میں کہتے ہیں: الظاہر بنفسہ و المظہر لغیرہ ۔ نور وہ ہے جو خود نمایاں ہو اور دوسروں کو بھی نمایاں کرے۔ چنانچہ نور جس کا مصدر سورج ہے، مصدر حیات اور مایہ زندگی ہے اور تاریکی، شب، رحمت و نعمت الٰہی ہے اور آرام و سکون کے لیے ایک پرکیف فرصت ہے۔ نور اور ظلمت کا یکے بعد دیگرے آنا، بالفاظ دیگر لیل و نہار کی گردش، اللہ کے اس کائناتی نظام کا اہم حصہ ہے۔ لہٰذا یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ ظلمت، نور نہ ہونے کا نام ہے اور مخلوق نہیں ہے۔ بِرَبِّہِمۡ یَعۡدِلُوۡنَ اس کے باوجود محسوس پرست لوگ ا س عظیم رب کو ان بے حس و حرکت اور جامد بتوں کے برابر ٹھہراتے ہیں اور ان سے امیدیں وابستہ رکھتے ہیں۔ یعنی ان کو بھی رَبّ کہتے ہیں، جن کا تخلیق میں کوئی دخل ہے، نہ تدبیر میں۔

خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ خلق جب اللہ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو ایجاد ہے اور ایجاد، عدم سے ہوتی ہے۔

وَ جَعَلَ الظُّلُمٰتِ وَ النُّوۡرَ جَعل قرار دینے کو کہتے ہیں۔ یعنی جس طرح روشنی مخلوق ہے، اسی طرح تاریکی بھی اللہ کی مخلوق اور اس کی نشانی ہے۔

اہم نکات

۱۔جب خلق و جعل، تخلیق و تدبیر اللہ کے ہاتھ میں ہے تو غیر اللہ کے پاس کیا چیز لینے جاتے ہو؟

۲۔نور و ظلمات کا یکے بعد دیگر لانا، اللہ کی طرف سے تدبیر کائنات کا ایک اہم مظہر ہے۔

۳۔ نور اور ظلمت کا ایک ہی خالق ہے۔ مجوسیت کی رد۔


آیت 1