آیات 8 - 9
 

وَ قَالُوۡا لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ عَلَیۡہِ مَلَکٌ ؕ وَ لَوۡ اَنۡزَلۡنَا مَلَکًا لَّقُضِیَ الۡاَمۡرُ ثُمَّ لَا یُنۡظَرُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔ اور کہتے ہیں: اس (پیغمبر) پر فرشتہ کیوں نازل نہیں کیا گیا اور اگر ہم نے فرشتہ نازل کر دیا ہوتا تو (اب تک) فیصلہ بھی ہو چکا ہوتا پھر انہیں(ذرا)مہلت نہ دی جاتی۔

وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ مَلَکًا لَّجَعَلۡنٰہُ رَجُلًا وَّ لَلَبَسۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّا یَلۡبِسُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔اور اگر ہم اسے فرشتہ قرار دیتے بھی تو مردانہ (شکل میں) قرار دیتے اور ہم انہیں اسی شبہ میں مبتلا کرتے جس میں وہ اب مبتلا ہیں۔

تفسیر آیات

مشرکین ایک بہانہ یہ تراشتے تھے کہ اگر یہ شخص اللہ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوتا تو اس کے ساتھ ایک فرشتہ بھی ہوتا جو اس کی تائید کرے، دشمنوں کی اذیت سے محفوظ رکھے اور پیغام رسانی میں اس رسول کا ساتھ دے۔ چنانچہ سورہ فرقان آیت ۷ میں اس مطالبے کا ذکر آیا ہے:

۔۔۔۔۔ لَوۡ لَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مَلَکٌ فَیَکُوۡنَ مَعَہٗ نَذِیۡرًا

اس پر کوئی فرشتہ کیوں نازل نہیں ہوتا؟ تاکہ اس کے ساتھ تنبیہ کر دیا کرے۔

جواب میں فرمایا:

اولاً: اگر ہم نے فرشتہ نازل کر دیا ہوتا تو اب تک فیصلہ ہو چکا ہوتا۔ کیونکہ سنت الٰہی یہ ہے کہ جب اس قسم کے معجزات کا مطالبہ قبول ہوتا ہے، پھر بھی کفار ایمان نہیں لاتے ہیں تو پھر مہلت کا امکان ختم ہو جاتا ہے اور فوری عذاب نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ نزو ل مائدہ کے بارے میں فرمایا :

اِنِّیۡ مُنَزِّلُہَا عَلَیۡکُمۡ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بَعۡدُ مِنۡکُمۡ فَاِنِّیۡۤ اُعَذِّبُہٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُہٗۤ اَحَدًا مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ (۳۵ فاطر:۴۳)

۔۔۔ میں یہ خوان تم پر نازل کرنے والا ہوں، لیکن اگر اس کے بعد تم میں سے کوئی کفر اختیار کرے گا تو اسے میں ایسا عذاب دوں گا کہ اس جیسا عذاب عالمین میں سے کسی کو نہ دیا ہو گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک ایمان بالغیب ہے اور تعقل و تفکر کے ذریعے ایمان کی دعوت دی جاتی ہے تو مہلت بھی مل جاتی ہے لیکن جب یہ ایمان شہود میں آگیا اور تعقل و تفکر سے گزر کر مرحلہ مشہودات اور محسوسات میں داخل ہوگیا تو پھر مہلت کی گنجائش ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ امتحان و آزمائش کی مزید گنجائش نہیں رہتی۔ اب نتیجہ آزمائش اور عذاب کا مرحلہ آ جاتا ہے۔

وَ لَوۡ جَعَلۡنٰہُ ثانیاً اگر ہم فرشتے بھیج دیں تو تمہیں وہی اشتباہ پیش آئے گا جو اب پیش آ رہا ہے۔ کیونکہ اگرہم فرشتے کو انسانوں کو پیغام دینے اور ان کی ہدایت کے لیے بھیجتے تو لازماً لوگ انہیں دیکھتے، ان سے ہم کلام ہوتے۔ اطاعت الٰہی کے لیے وہ فرشتہ نمونہ ہوتا تووہ بھی انسانوں کی طرح مکلف ہوتا۔ وہ انسانوں جیسی تکالیف اٹھائے تو نمونہ بنے۔ اس صورت میں وہی ساری بشری خاصیتیں اس میں ہوتیں تو پھر وہی اشتباہ پیش آتا جو اب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے سلسلے میں پیش آرہا ہے۔

اہم نکات

۱۔کفر و عناد کے باوجود اللہ اپنی رحمت واسعۃ سے عذاب نازل کرنے میں جلدی نہیں کرتا۔

۲۔انسان کو خودمختارانہ طور پر آزمائش میں ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ فرشتے بھیج کر فوق الفطرت طاقت استعمال نہ کی جائے۔

۳۔انتہائی مرحلے کی حجت پوری ہونے کے بعد آزمائش کا دور ختم اور عذاب کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ لَّقُضِیَ ۔۔۔۔


آیات 8 - 9