ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ طِیۡنٍ ثُمَّ قَضٰۤی اَجَلًا ؕ وَ اَجَلٌ مُّسَمًّی عِنۡدَہٗ ثُمَّ اَنۡتُمۡ تَمۡتَرُوۡنَ﴿۲﴾

۲۔ اسی نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا پھر ایک مدت کا فیصلہ کیا اور ایک مقررہ مدت اس کے پاس ہے، پھر بھی تم تردد میں مبتلا ہو۔

2۔ انسانی جسم کی تخلیق میں زمینی عناصر استعمال ہوئے ہیں اور اس میں کوئی عنصر ایسا نہیں ہے جو ارضی نہ ہو۔آیت کے دوسرے جملے میں دو مدتوں کا ذکر ہے۔ ایک غیر معین مدت اور ایک معین مدت۔ چنانچہ انسانی زندگی میں دو قسم کے عوامل سامنے آتے ہیں، ایک طبیعی اور دوسرا غیر طبیعی۔ انسان بھی ایک مشین ہے جو قدرتی طور پر ایک معین مدت تک کے لیے بنائی گئی ہے۔ جس طرح مشین کی زندگی کا دار و مدار مشین بنانے والے پر ہے جس کی روسے بنانے والا گارنٹی دے سکتا ہے، لیکن کسی حادثے کی صورت میں اس مشین کی زندگی مختصر ہو سکتی ہے، جس کا دار و مدار حالات پر ہے۔ بالکل اسی طرح انسان کو اللہ نے طبیعی لحاظ سے ایک مدت کے لیے بنایا ہے۔ اس مدت کے بعد انسان کو حتمی طور پر مرنا ہے، جسے ”اجل محتوم“ کہتے ہیں۔ لیکن غیر طبیعی علل و اسباب کی وجہ سے انسان کی عمر مختصر ہو سکتی ہے، یہ مدت غیر معین ہے۔ چونکہ اس کا دار و مدار حالات پر ہے، لہٰذا اسے ”اجل غیر حتمی“ کہتے ہیں۔ ”اجل محتوم“ ناقابل تغییر ہے، جبکہ ”غیر حتمی اجل“ قابل تغیر ہے۔