آیات 21 - 26
 

یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ الَّتِیۡ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمۡ وَ لَا تَرۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِکُمۡ فَتَنۡقَلِبُوۡا خٰسِرِیۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے مقرر فرمائی ہے اور پیچھے نہ ہٹنا ورنہ خسارے میں رہو گے۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ فِیۡہَا قَوۡمًا جَبَّارِیۡنَ ٭ۖ وَ اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَا حَتّٰی یَخۡرُجُوۡا مِنۡہَا ۚ فَاِنۡ یَّخۡرُجُوۡا مِنۡہَا فَاِنَّا دٰخِلُوۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ وہ کہنے لگے:اے موسیٰ وہاں تو ایک طاقتور قوم آباد ہے اور وہ جب تک اس (زمین) سے نکل نہ جائے ہم تو اس میں ہرگز داخل نہیں ہوں گے، ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم داخل ہو جائیں گے۔

قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمَا ادۡخُلُوۡا عَلَیۡہِمُ الۡبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلۡتُمُوۡہُ فَاِنَّکُمۡ غٰلِبُوۡنَ ۬ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔خوف (خدا) رکھنے والوں میں سے دو اشخاص جنہیں اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے: دروازے کی طرف ان پر حملہ کر دو پس جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو فتح یقینا تمہاری ہو گی اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔

قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوۡا فِیۡہَا فَاذۡہَبۡ اَنۡتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ وہ کہنے لگے: اے موسیٰ! جب تک وہ وہاں موجود ہیں ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے آپ اور آپ کا رب جا کر جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔

قَالَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ موسیٰ نے کہا: میرے رب! میرے اختیار میں میری اپنی ذات اور میرے بھائی کے سوا کچھ نہیں ہے، لہٰذا تو ہم میں اور اس فاسق قوم میں جدائی ڈال دے۔

قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۚ یَتِیۡہُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ؕ فَلَا تَاۡسَ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ (اللہ نے) فرمایا:وہ ملک ان پر چالیس سال تک حرام رہے گا، وہ زمین میں سرگرداں پھریں گے، لہٰذا آپ اس فاسق قوم کے بارے میں افسوس نہ کیجیے۔

تفسیر آیات

۱۔ یٰقَوۡمِ ادۡخُلُوا الۡاَرۡضَ الۡمُقَدَّسَۃَ: ارض مقدس سے مراد بیت المقدس ہی کی سرزمین ہو سکتی ہے، جہاں مسجد اقصی واقع ہے، جو حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کی سرزمین ہے۔ چنانچہ توریت میں بھی اسی مضمون پر صراحت موجود ہے:

تو اس سر زمین میں جس کی بابت خداوند نے تیرے باپ دادوں، ابرہام، اضحاک اور یعقوب سے قسم کھا کر کہا کہ اسے میں تمہیں دوں گا، سکونت کرے۔ (استثنا ۳۰: ۲۰)

بائبل اور دیگر حوالوں سے اس واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے :

حضرت موسیٰ (ع) مصر سے نکلنے کے بعد اپنی قوم کے ہمراہ دشت فاران یعنی جزیرہ نمائے سینا میں مقیم رہے اور اپنی آبائی مقدس سرزمین فلسطین کو فتح کرنا حکم الٰہی تھا اور ان کی منزل، چنانچہ حضرت موسیٰ (ع) نے فلسطین پر فوج کشی سے پہلے اپنی قوم کے ہر قبیلے میں سے ایک سردار کا انتخاب کر کے فلسطین کے حالات کا جائزہ لینے کے لیے یا بقول توریت جاسوسی کے لیے بھیجا کہ اس زمین کو دیکھو کہ کیسی ہے اور وہاں بسنے والے لوگ کیسے ہیں؟ طاقتور ہیں یا کمزور، تھوڑے ہیں یا بہت؟ اور وہ زمین جس میں وہ رہتے ہیں کیسی ہے؟ اچھی ہے یا بری اور وہ شہر جن میں وہ بستے ہیں، کیسے ہیں؟ خیموں میں ہیں یا قلعوں میں؟ اور زمین کیسی ہے، زرخیزیا بنجر؟ اس میں درخت ہیں یا نہیں؟ (گنتی ۱۳: ۲۰)

۲۔ قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ فِیۡہَا قَوۡمًا جَبَّارِیۡنَ: ان کی تعداد ۱۲ تھی۔ ان میں سے دس نے آ کر یہ مبالغہ آمیز رپورٹ دی کہ فلسطین کے عمالقہ نہایت ہی طاقتور ہیں۔ عمالقہ اسرائیل کے پرانے حریف اور جنگجو قوم تھے، ان کے ساتھ اسرائیلی قوم کی خونریز جنگوں کی داستانوں سے ان کی تاریخ پر ہے۔ ان لوگوں نے کہا: ہم میں زور نہیں کہ ہم ان لوگوں پر چڑھیں، کیونکہ وہ ہم لوگوں سے زیادہ زور آور ہیں۔ (گنتی ۱۳:۲۳)

یہ زمین جس کی جاسوسی میں ہم گئے تھے، ایک زمین ہے جو اپنے بسنے والوں کو نگلتی ہے اور سب لوگ جنہیں ہم نے دیکھا، بڑے قدآور ہیں اور ہم نے وہاں جباروں کے ہاں بن عناق کو، جو جباروں کی نسل سے ہے، دیکھا اور ہم اپنی نظروں میں ان کے سامنے ایسے ہیں جیسے ٹڈے۔ (گنتی ۱۲: ۳۳)

یہ سن کر پوری جماعت نے گریہ و زاری شروع کر دی اور کہا : اے کاش! ہم مصر میں ہی مر جاتے یا اسی بیابان میں فنا ہو جاتے۔ خداوند کس لیے ہم کو اس زمین میں لایا کہ تلوار سے گر جائیں۔ کیوں نہ ہم اپنے میں سے ایک کو بادشاہ بنائیں اور اس کی سربراہی میں مصر کو واپس چلیں۔

۳۔ قَالَ رَجُلٰنِ: یہ باتیں سن کر یوشع بن نون اور کالب بن یفنہ نے اظہار بیزاری کیا اور کہا: وہ زمین جس پر ہمارا گزر ہوا، نہایت خوب زمین ہے۔ اگر خدا ہم سے راضی ہے تو ہم کو اس زمین پر لے جائے گا۔ تم خدا سے بغاوت نہ کرو اور نہ تم اس زمین کے لوگوں سے ڈرو، وہ تو ہماری خوراک ہیں۔

۴۔ اِنَّا لَنۡ نَّدۡخُلَہَاۤ: یہ باتیں سن کر اسرائیل کے سب لوگوں نے یہ جواب دیا: ان دونوں کو سنگسار کر دو۔ ہم اس سرزمین میں ہرگز داخل نہ ہوں گے۔ انہوں نے حضرت موسیٰ سے مطالبہ کیا کہ آپ خود اپنے رب کے ساتھ جائیں اور ان لوگوں سے لڑیں، ہم یہاں بیٹھے رہیں گے۔

۵۔ الَ رَبِّ اِنِّیۡ لَاۤ اَمۡلِکُ اِلَّا نَفۡسِیۡ وَ اَخِیۡ : حضرت موسیٰ نے کہا: میرے مالک میرا تو صرف اپنی جان اور اپنے بھائی پر حکم چلتا ہے۔ یعنی میری قوم میری اطاعت نہیں کر رہی ہے، نافرماں قوم ہے۔

۶۔ فَافۡرُقۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ الۡقَوۡمِ الۡفٰسِقِیۡنَ: اس دعا میں حضرت موسیٰ (ع) اپنی فاسق اور گستاخ قوم سے جدائی طلب کر رہے ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ کوئی ایسا فیصلہ فرمائے کہ اس قوم کا فسق نمایاں ہو جائے۔ چنانچہ اگلی آیت میں فرمایا: ان کو چالیس سال سرگردانی کی سزا دے دی گئی ہے۔

۷۔ قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیۡہِمۡ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً: اس نافرمانی اور اللہ تعالیٰ کی شان میں جسارت کی یہ سزا ملی کہ یہ قوم چالیس سال دشت فاران میں سرگرداں رہے گی اور فلسطین کی سر زمین کو فتح کرنے سے پہلے اس وقت کے تمام نافرمان لوگ مر جائیں گے، سوائے یوشع اور کالب کے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ پورے چالیس سال اس دشت میں بے سر و سامان پھرتے رہے اور شرق اردن فتح ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا اور حضرت یوشع کے عہد خلافت میں بنی اسرائیل فلسطین کو فتح کرنے پر قادر ہوئے۔

اہم نکات

۱۔ تمام اقوام و امم کے ساتھ سنت الہٰیہ اور کائناتی قانون کا بیان مقصود ہے کہ قوموں کا زوال و ترقی، عزت و فضیلت اور ذلت و خواری، ان کی اپنے شامت اعمال کی وجہ سے ہے اور اس کی ایک واضح ترین مثال اور عبرتناک ترین درس بنی اسرائیل کا یہ واقعہ ہے۔


آیات 21 - 26