آیات 27 - 31
 

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔

لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے گا تو میں تجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھانے والا نہیں ہوں، میں تو عالمین کے رب اللہ سے ڈرتا ہوں۔

اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ فَتَکُوۡنَ مِنۡ اَصۡحٰبِ النَّارِ ۚ وَ ذٰلِکَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۚ۲۹﴾

۲۹۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تم ہی پکڑے جاؤ اور دوزخی بن کر رہ جاؤ اور ظالموں کی یہی سزا ہے۔

فَطَوَّعَتۡ لَہٗ نَفۡسُہٗ قَتۡلَ اَخِیۡہِ فَقَتَلَہٗ فَاَصۡبَحَ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔چنانچہ اس کے نفس نے اس کے بھائی کے قتل کی ترغیب دی تو اسے قتل کر ہی دیا، پس وہ خسارہ اٹھانے والوں میں (شامل) ہو گیا۔

فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا یَّبۡحَثُ فِی الۡاَرۡضِ لِیُرِیَہٗ کَیۡفَ یُوَارِیۡ سَوۡءَۃَ اَخِیۡہِ ؕ قَالَ یٰوَیۡلَتٰۤی اَعَجَزۡتُ اَنۡ اَکُوۡنَ مِثۡلَ ہٰذَا الۡغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوۡءَۃَ اَخِیۡ ۚ فَاَصۡبَحَ مِنَ النّٰدِمِیۡنَ ﴿ۚۛۙ۳۱﴾

۳۱۔ پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، کہنے لگا: افسوس مجھ پر کہ میں اس کوے کے برابر بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا، پس اس کے بعد اسے بڑی ندامت ہوئی۔

تشریح کلمات

قُرۡبَان:

( ق ر ب ) ہر وہ چیز جس سے اللہ کی قرب جوئی کی جائے اور عرف میں قربان ذبیحہ کو کہتے ہیں اور بادشاہ کے ہم نشین کو قربان الملک کہتے ہیں۔

غُرَاب:

( غ ر ب ) کوا۔ اصل میں یہ لفظ غریب سے ماخوذ ہے۔ کہتے ہیں کہ کوے کو غراب اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ بہت دور تک چلا جاتا ہے۔

سُوۡٓءَۃَ:

( س و ء ) شرمگاہ کے کنایہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔

ویل:

( و ی ل ) برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور حسرت کے موقع پر۔

یَّبۡحَث:

( ب ح ث ) بحث اصل میں زمین میں کسی چیز کو تلاش کرنے کے معنوں میں ہے۔ بعد میں ہر قسم کی تلاش اور جستجو کو بحث کہا جانے لگا۔

تفسیر آیات

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ: انسان کی موجودہ نسل میں واقع ہونے والے پہلے خونین واقعہ اور اس کرہ ارض پر بہنے والے پہلے ناحق خون اور اولاد آدم میں وقوع پذیر ہونے والے پہلے معرکہ حق و باطل کی داستان ہے۔

اس داستان میں شر و خیر، ظلم و عدل، قساوت و رحم، تجاوز و صبر، اطاعت و نافرمانی اور سعادت و شقاوت کا ایک نمونہ ہے۔ اس داستان میں ہابیل حق کا کردار ادا کرتے ہیں اور قابیل باطل کا۔

۱۔ قبول اعمال کے لیے تقویٰ بنیاد ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں کے اعمال قبول فرماتا ہے۔ قرآن نے یہ نہیں بتایا کہ وہ قربانی کیا چیز ہے؟ کیونکہ اس قصے سے جو درس ملتا ہے اس میں قربانی کی نوعیت اہم نہیں ہے۔

۲۔ البتہ یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ آدم ؑکے ان دو بیٹوں کو کس طر ح علم ہو اکہ قربانی قبول ہوئی ہے یا نہیں؟ اس بات کا ذکر قرآن نے دوسری جگہ کیا ہے:

اَلَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ اللّٰہَ عَہِدَ اِلَیۡنَاۤ اَلَّا نُؤۡمِنَ لِرَسُوۡلٍ حَتّٰی یَاۡتِیَنَا بِقُرۡبَانٍ تَاۡکُلُہُ النَّارُ ؕ قُلۡ قَدۡ جَآءَکُمۡ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِیۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَ بِالَّذِیۡ قُلۡتُمۡ فَلِمَ قَتَلۡتُمُوۡہُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿﴾ (۳ آل عمران: ۱۸۳)

جو لوگ کہتے ہیں: ہمیں اللہ نے حکم دیا ہے کہ جب تک کوئی رسول ہمارے سامنے ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ آ کر کھا جائے، ہم اس پر ایمان نہ لائیں، کہدیجیے: مجھ سے پہلے بھی رسول روشن دلیل کے ساتھ تمہارے پاس آئے اور جس کا تم ذکر کرتے ہو وہ بھی لائے تو اگر تم سچے ہو تو تم لوگوں نے انہیں کیوں قتل کیا؟

یعنی اس زمانے میں مدعی نبوت کے لیے ضروری تھا کہ وہ جو قربانی مذبح میں پیش کرے، اسے آسمان سے آنے والی آگ جلا دے۔

۳۔ لِاَقۡتُلَکَ: میں تجھے قتل کروں گا۔ یہ اس شخص کی بات ہے، جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اور سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قتل کا محرک حسد تھا۔ چونکہ حسد میں غالباً بے گناہ کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے۔ یہاں جس کی قربانی قبول ہوئی تھی، اس کا کوئی گناہ نہ تھا۔ گناہ کا مرتکب تو وہ شخص تھا جس کی قربانی قبول نہیں ہوئی ہے۔ اس کے باوجود وہ بے گناہ کو صرف حسد کی بنیاد پر قتل کرنا چاہتا ہے۔

۴۔ لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ: جس کی قربانی قبول ہوئی تھی وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر تو مجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بھی میں تجھے قتل کرنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا۔ یعنی مجھے سعادت کی موت قبول ہے اور شقاوت کی زندگی قبول نہیں کہ میں اپنے بھائی کو قتل کر کے زندہ رہوں۔

۵۔ خوف خدا اس راہ میں حائل ہے کہ اپنے بھائی کے خون میں ہاتھ ڈالے: اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انہوں نے قتل کے لیے اپنے آپ کو پیش کیا اور اپنے قتل میں مدد دی۔ چنانچہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں اپنے قتل میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالوں گا، اپنا دفاع نہیں کروں گا۔ انہوں نے تویہ کہا کہ تیرے اس ارادۂ قتل کے بدلہ میں، میں بھی تیرے قتل کا ارادہ نہیں کروں گا اور یہ جاننے کے باوجود کہ تو میرے قتل کی تدبیریں سوچ رہا ہے، میں تیرے قتل میں پہل نہیں کروں گا۔

۶۔ اِنِّیۡۤ اُرِیۡدُ اَنۡ تَبُوۡٓاَ بِاِثۡمِیۡ وَ اِثۡمِکَ : میں چاہتا ہوں کہ میرے اور اپنے گناہ میں تو ہی ماخوذ ہو اور تیرے قتل کا ارادہ کر کے میں بھی گناہ کا ارتکاب کروں؟ میں چاہتا ہوں کہ اپنے گناہ کے ساتھ میرے گناہ کا بوجھ تیرے ہی کندھوں پر ہو کہ میرے قتل کے بعد میرا بوجھ بھی تجھے برداشت کرنا پڑے گا یا شاید مطلب یہ ہو کہ ایک دوسرے کے قتل سے دونوں گناہ گار ہونے کی بجائے توہی دونوں کی جگہ گناہ کا بوجھ اٹھائے یا قیامت کے دن ظالم کے حسنات مظلوم کو دیے جائیں گے اور اگر ظالم کے حسنات نہ ہوں تو اس کو مظلوم کے گناہوں کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔

۷۔ فَطَوَّعَتۡ لَہٗ نَفۡسُہٗ: بالآخر اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل کی ٹھان لی اور حسد و شقاوت نے بالآخر اس جرم کے ارتکاب پر آمادہ کر دیا اور بھائی کو قتل کر ہی دیا۔ گویا ایک گومگو کے بعد ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا جو آنے والے تمام جرائم کے لیے بنیاد بنا۔

۸۔ فَبَعَثَ اللّٰہُ غُرَابًا: پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے دکھا دے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابتدائی انسان کس قدر سادہ تھا کہ اسے مردے کو زمین میں چھپانے کا شعور بھی نہ تھا۔ انسان عالم طفولیت میں تھا اور طبیعیت کے اسرار و رموز سے کلی طور پر ناواقف تھا۔ بعد کے تجربات سے انسان نے طبیعیت کو تدریجاً مسخر کر دیا کہ اس وقت انسان ایٹم کی تسخیر کے مرحلے میں داخل ہے اور تسخیرِ طبیعیت کا یہ سلسلہ جاری ہے۔

۹۔ قاتل نے دیکھا کہ وہ ایک غراب کے برابر بھی سمجھ نہیں رکھتا تو اس بات پر ندامت ہوئی، قتل پر نہیں یا ممکن ہے کہ اپنی جہالت اور ناتوانی دیکھنے کے بعد قتل پر بھی ندامت ہوئی ہو۔

۱۰۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ انسان ایک ارتقا پذیر موجود ہے کہ اس زمانے کا انسان ایک چیز کو زمین کے اندر چھپانے تک کی بات کو سمجھنے پر قادر نہ تھا اور آج کا انسان معجز نما کارنامے انجام دیتا ہے، جب کہ کوا آج بھی وہی سوچ رکھتاہے جو اس زمانے میں رکھتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہیے کہ اس وقت کے کوے میں وہ ساری صلاحیتیں موجود تھیں جو آج کے کوے میں ہیں، کیونکہ یہ ارتقا کے لیے نہیں بلکہ کسی اور موجودات کے لیے مسخر ہے۔

۱۱۔ کہتے ہیں پرندوں میں سے کوے کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے شکار اور اپنے جمع کردہ دانوں کو زمین میں دفن کرتا ہے۔

۱۲۔ توریت میں بھی اس داستان کا ذکر ملتاہے لیکن اس میں ہابیل کی تدفین کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ البتہ شارحین نے لکھا ہے کہ آدم و حوا نے ایک پرندے کو دیکھ کر ہابیل کو دفن کیا۔ د وسری بات یہ ہے کہ اسلامی روایات میں ان فرزندانِ آدم ؑکے نام ہابیل اور قابیل آئے ہیں جب کہ توریت میں ان کے نام ہابیل و قایین آئے ہیں۔ ناموں میں ایسا اختلاف ایک معمول ہے تاہم بعض اسلامی روایت میں بھی قابیل، قابل، قابن اور قبن کا ذکر بھی ملتا ہے۔

اہم نکات

۱۔اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ نبوت کو نسل اسماعیلؑ میں جاری فرمایا اور نسل یہود کو اس بار نبوت کے اٹھانے کے لیے نا اہل قرار دیا۔ یہودیوں نے از روئے حسد اس کا انتقام لینا شروع کیا اور مسلمانوں کے خلاف ان کے ناپاک عزائم کی آگ کبھی بھی فرو نہیں ہوئی۔ بالکل قابیل کی طرح جو اپنے بھائی کی قربانی کی قبولیت پر حسد کرتا رہا اور بالآخر اسے قتل کر دیا۔


آیات 27 - 31