تقویٰ قبولیت عمل کی بنیاد


وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ ابۡنَیۡ اٰدَمَ بِالۡحَقِّ ۘ اِذۡ قَرَّبَا قُرۡبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنۡ اَحَدِہِمَا وَ لَمۡ یُتَقَبَّلۡ مِنَ الۡاٰخَرِ ؕ قَالَ لَاَقۡتُلَنَّکَ ؕ قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور آپ انہیں آدم کے دونوں بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہا: میں تجھے ضرور قتل کروں گا، (پہلے نے)کہا: اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے۔

27۔ قبولیت اعمال کے لیے تقویٰ بنیاد ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے: لَا یَقِلُّ عَمَلٌ مَعَ التَّقْوَی وَ کَیْفَ یَقِلُّ مَا یُتَقَبَّلُ ۔ (نہج البلاغۃ۔ حکمت:95) تقویٰ کے ساتھ عمل تھوڑا نہیں ہوتا۔ بھلا وہ عمل تھوڑا کس طرح ہو سکتا ہے جسے اللہ نے قبول کیا ہو۔

اس آیت میں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قربانی کیا چیز تھی، البتہ دوسری جگہ اس کا ذکر ملتا ہے کہ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی علامت یہ تھی کہ آسمان سے آنے والی آتش اسے جلا دے۔ ملاحظہ فرمائیں سورﮤ آل عمران آیت 183۔