عروج و زوال میں سنت الہیہ


قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیۡنَ یَخَافُوۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمَا ادۡخُلُوۡا عَلَیۡہِمُ الۡبَابَ ۚ فَاِذَا دَخَلۡتُمُوۡہُ فَاِنَّکُمۡ غٰلِبُوۡنَ ۬ۚ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوۡۤا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ﴿۲۳﴾

۲۳۔خوف (خدا) رکھنے والوں میں سے دو اشخاص جنہیں اللہ نے اپنی نعمت سے نوازا تھا کہنے لگے: دروازے کی طرف ان پر حملہ کر دو پس جب تم اس میں داخل ہو جاؤ گے تو فتح یقینا تمہاری ہو گی اور اگر تم مومن ہو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔

23۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے نکلنے کے بعد اپنی قوم کے ہمراہ دشت فاران یعنی جزیرہ نمائے سینا میں مقیم رہے۔ انہیں فلسطین فتح کرنے کا حکم الہٰی ملا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فلسطین پر فوج کشی سے پہلے بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں کی نمائندگی میں بارہ افراد فلسطین کا جائزہ لینے کے لیے بھیجے۔ ان میں سے دس افراد نے فوج کشی کے خلاف رپورٹ دی تو پوری جماعت نے جنگ سے انکار کر دیا۔ اس نافرمانی کی انہیں سزا سنائی گئی کہ بنی اسرائیل چالیس سال تک دشت فاران میں سرگرداں رہیں گے اور فلسطین کی فتح سے پہلے اس وقت کے تمام نافرمان لوگ مر جائیں گے، سوائے یوشع اور کالب کے، جنہوں نے جنگ کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ پورے چالیس سال اس دشت میں بے سر و سامانی کے عالم میں پھرتے رہے۔ شرق اردن فتح ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انتقال ہوا اور حضرت یوشع علیہ السلام کے عہد میں بنی اسرائیل فلسطین کو فتح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔