بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ باز آنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس واضح دلیل نہ آئے۔

مُنۡفَکِّیۡنَ کا ایک ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: متروک ہونے والے۔ اس صورت میں آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے: اہل کتاب اور مشرکین کو اپنے حال پر چھوڑنے والے نہیں ہیں، جب تک ایک حجت و بیّنہ (ایک رسول کی شکل میں) ان کے پاس نہ آ جائے۔

رَسُوۡلٌ مِّنَ اللّٰہِ یَتۡلُوۡا صُحُفًا مُّطَہَّرَۃً ۙ﴿۲﴾

۲۔ (یعنی) اللہ کی طرف سے ایک رسول جو انہیں پاک صحیفے پڑھ کر سنائے۔

فِیۡہَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ؕ﴿۳﴾

۳۔ ان صحیفوں میں مستحکم تحریریں درج ہیں۔

وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ؕ﴿۴﴾

۴۔ اور جنہیں کتاب دی گئی تھی وہ واضح دلیل آنے کے بعد متفرق ہو گئے۔

وَ مَاۤ اُمِرُوۡۤا اِلَّا لِیَعۡبُدُوا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۙ حُنَفَآءَ وَ یُقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُؤۡتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ذٰلِکَ دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ ؕ﴿۵﴾

۵۔ حالانکہ انہیں تو صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ یکسو ہو کر دین کو اس کے لیے خالص رکھتے ہوئے صرف اللہ کی عبادت کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی مستحکم (تحریروں کا) دین ہے۔

دِیۡنُ الۡقَیِّمَۃِ : موصوف محذوف ہے۔ یعنی دِیۡنُ الۡکِتٰبَ الۡقَیِّمَۃِ

اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ شَرُّ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۶﴾

۶۔ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر ہو گئے وہ یقینا جہنم کی آگ میں ہمیشہ رہیں گے، یہی لوگ مخلوقات میں بدترین ہیں۔

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ ؕ﴿۷﴾

۷۔ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔

7۔ طبری اپنی تفسیر میں، شوکانی فتح القدیر 5: 564 ط حلبی، آلوسی روح المعانی میں سیوطی الدرالمنثور میں روایت کرتے ہیں کہ خَیۡرُ الۡبَرِیَّۃِ علی علیہ السلام اور ان کے ماننے والے ہیں۔ اصحاب رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی علیہ السلام کو آتے دیکھ کر کہا کرتے تھے: جاء خیر البریۃ۔ (الأمالی للطوسی ص251) مخلوقات میں سب سے افضل آ گئے۔

جَزَآؤُہُمۡ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتُ عَدۡنٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ؕ ذٰلِکَ لِمَنۡ خَشِیَ رَبَّہٗ ٪﴿۸﴾

۸۔ ان کا صلہ ان کے رب کے پاس دائمی باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور جن میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ سب کچھ اپنے رب سے خوف رکھنے والے کے لیے ہے۔