آیت 1
 

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

سورۃ البینۃ

پہلی آیت میں مذکور لفظ الۡبَیِّنَۃُ سے یہ سورۃ موسوم ہے۔

اس سورۃ کے مدنی اور مکی ہونے میں اختلاف ہے لیکن مضمون میں اہل کتاب کا ذکر ہونے سے اس کا مدنی ہونا زیادہ قرین واقع ہے۔

اہل کتاب میں اختلاف کا ذکر ہے کہ یہ اختلاف ان کے پاس واضح دلیل آنے کے بعد رونما ہوا۔ اس دلیل کو ہر فرقے نے اپنے مفاد میں استعمال کیا جس کی وجہ سے دین میں اختلاف آیا ورنہ دین کے نقوش اس طرح واضح اور روشن تھے کہ اس میں اختلاف کی گنجائش نہ تھی۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَمۡ یَکُنِ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ وَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ مُنۡفَکِّیۡنَ حَتّٰی تَاۡتِیَہُمُ الۡبَیِّنَۃُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ باز آنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس واضح دلیل نہ آئے۔

تفسیر آیات

اس آیۂ مبارکہ کی تفسیر میں آراء بہت مضطرب ہیں۔ ہماری نظر میں دو تفسیریں قریں حقیقت ہیں:

۱۔ اہل کتاب اور مشرکین اپنے عقیدے سے جدا ہونے والے نہیں ہیں جب تک ان کے پاس ان کے مذہب کے باطل ہونے پر واضح دلیل نہ آئے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ واضح دلیل آنے پر ان میں سے جو حق کے طالب تھے وہ اپنا عقیدہ چھوڑ کر اسلام کی طرف آ گئے۔ پس آیت کی نگاہ ان لوگوں پر ہے جو واضح دلیل آنے پر ایمان لے آئے۔ اس پر یہ اعتراض نہیں آتا کہ کچھ لوگ واضح دلیل آنے پر بھی ایمان نہیں لائے۔

۲۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم مُنۡفَکِّیۡنَ کو متروکین کے معنوں میں لیں۔ یعنی اہل کتاب اور مشرکین کو اپنی حالت پر چھوڑا نہیں جائے گا جب تک ان پر حجت پوری نہ ہو جائے۔ حجت پوری ہونے پر وہ اگر ایمان نہیں لاتے تو پھر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے گا۔ جیسا کہ فرمایا:

وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِلَّ قَوۡمًۢا بَعۡدَ اِذۡ ہَدٰىہُمۡ حَتّٰی یُبَیِّنَ لَہُمۡ مَّا یَتَّقُوۡنَ۔۔۔۔ (۹ توبہ: ۱۱۵)

اور اللہ کسی قوم کو ہدایت دینے کے بعد گمراہ نہیں کرتا یہاں تک کہ ان پر یہ واضح کر دے کہ انہیں کن چیزوں سے بچنا ہے۔


آیت 1