الَّذِیۡنَ طَغَوۡا فِی الۡبِلَادِ ﴿۪ۙ۱۱﴾

۱۱۔ ان لوگوں نے ملکوں میں سرکشی کی۔

فَاَکۡثَرُوۡا فِیۡہَا الۡفَسَادَ ﴿۪ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور ان میں کثرت سے فساد پھیلایا۔

فَصَبَّ عَلَیۡہِمۡ رَبُّکَ سَوۡطَ عَذَابٍ ﴿ۚۙ۱۳﴾

۱۳۔ پس آپ کے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۔

اِنَّ رَبَّکَ لَبِالۡمِرۡصَادِ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ یقینا آپ کا رب تاک میں ہے۔

14۔ الۡمِرۡصَادِ : گھات کو کہتے ہیں۔ یعنی کسی مجرم کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ رب کی نگاہ سے بچ نکلے۔ یہ گھات دنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی۔

فَاَمَّا الۡاِنۡسَانُ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکۡرَمَہٗ وَ نَعَّمَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَکۡرَمَنِ ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ مگر جب انسان کو اس کا رب آزما لیتا ہے پھر اسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے تو کہتا ہے: میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔

15۔ یعنی اللہ کسی کو امتحان میں ڈالنے کے لیے اسے عزت دیتا ہے تو نادان اسے امتحان و آزمائش خیال کرنے کی جگہ یہ تصور کرتا ہے کہ میں اللہ کا چہیتا بن گیا ہوں، اس لیے مجھے اپنی عنایتوں سے نوازا ہے۔ اس طرح وہ غرور میں آ کر سرکش ہو جاتا ہے۔ اگر امتحان کا تصور کرتا تو اس نعمت سے حقوق اللہ و حقوق العباد ادا کرتا۔

وَ اَمَّاۤ اِذَا مَا ابۡتَلٰىہُ فَقَدَرَ عَلَیۡہِ رِزۡقَہٗ ۬ۙ فَیَقُوۡلُ رَبِّیۡۤ اَہَانَنِ ﴿ۚ۱۶﴾

۱۶۔ اور جب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو وہ کہتا ہے: میرے رب نے میری توہین کی ہے۔

16۔ آزمائش کی دوسری صورت یہ ہے کہ اس پر روزی تنگ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ یہ صبر کرتا اور اللہ کے فیصلے پر راضی اور شاکر رہتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے مجھے نظر انداز کیا ہے۔ ان دو آیات سے معلوم ہوا کہ فقر اور تونگری دونوں اللہ کی طرف سے آزمائش ہیں۔ نہ دولت قرب الٰہی کی علامت ہے، نہ تنگدستی اللہ سے دوری کی علامت ہے۔

کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ ہرگز نہیں ! بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتے،

17۔ یتیم کو سب سے پہلے مہر و محبت کی ضرورت ہے۔ باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد اس کی شخصیت میں جو احساس محرومیت آ گیا ہے اسے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ حدیث میں آیا ہے جو شخص یتیم کے سر پر مہربانی کا ہاتھ پھیرے تو قیامت کے دن ہر بال کے مقابلے میں ایک نور عنایت فرمائے گا۔ (الفقیہ 1: 18۔ مسند احمد حدیث 31132۔ یہاں نور کی جگہ حسنہ کا ذکر ہے)

وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور نہ ہی مسکین کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہو،

وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اور میراث کا مال سمیٹ کر کھاتے ہو،

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو۔