آیات 17 - 20
 

کَلَّا بَلۡ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ الۡیَتِیۡمَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ ہرگز نہیں ! بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتے،

وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور نہ ہی مسکین کو کھلانے کی ترغیب دیتے ہو،

وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ اَکۡلًا لَّمًّا ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اور میراث کا مال سمیٹ کر کھاتے ہو،

وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا ﴿ؕ۲۰﴾

۲۰۔ اور مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو۔

تشریح کلمات

تَحٰٓضُّوۡنَ:

( ح ض ض ) حض ترغیب دینا۔

لَّمًّا:

( ل م م ) جمع کرنا۔

تفسیر آیات

۱۔ کَلَّا: ایسا نہیں ہے کہ عزت و نعمت ملنے سے تم اللہ کے ہاں عزیز ہو گئے ہو یا رزق میں تنگی سے اللہ تمہاری اہانت کرنا چاہتا ہے بلکہ تمہاری اہانت یتیموں کی عزت نہ کرنے، مساکین کو اہمیت نہ دینے، میراث کا مال کھانے، مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرنے میں ہے۔ عزت ان مذکورہ امور میں نفس پرستی نہ کرنے میں ہے۔

۲۔ لَّا تُکۡرِمُوۡنَ: تم یتیموں کو میراث سے محروم کر کے انہیں احترام آدمیت سے محروم کرتے ہو۔ چونکہ زمان جاہلیت میں لوگ یتیموں کو باپ کی میراث سے محروم رکھتے تھے اور ان چھوٹے بچوں کو کربناک حالت پر چھور دیتے تھے۔

یتیم کو سب سے پہلے پیار و محبت کی ضرورت ہے۔ باپ کا سایہ اٹھنے کے بعد اس کی شخصیت میں میں آنے والے احساس محرومیت کو دور کرنے کا واحد ذریعہ پیار و محبت ہے۔

یہی وجہ ہے حدیث میں آیا ہے:

جو شخص یتیم کے سر پر مہربانی کا ہاتھ پھیر دے تو قیامت کے دن ہر بال کے مقابلے میں اللہ ایک نور عنایت فرمائے گا۔ ( الفقیہ ۱:۱۸۔ مسند احمد حدیث ۳۱۱۳۲۔ مسند میں نور کی جگہ حسنہ کا ذکر ہے۔)

۳۔ وَ لَا تَحٰٓضُّوۡنَ عَلٰی طَعَامِ: نہ ہی تم بھوکے مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے ایک دوسرے کو ترغیب دیتے ہو۔ اس سے معلوم ہوا صرف خود کھلانا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دینی چاہیے تاکہ معاشرے میں غریب پروری کا شعور پیدا ہو جائے۔

۳۔ وَ تَاۡکُلُوۡنَ التُّرَاثَ: یتیموں کی میراث سمیٹ کر کھاتے ہو اور انہیں اپنے باپ کی میراث سے محروم کرتے ہو۔

۴۔ وَّ تُحِبُّوۡنَ الۡمَالَ حُبًّا جَمًّا: مال کی محبت انسان میں اس طرح رچی بسی ہوتی ہے کہ اس سے ہاتھ اٹھانا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ مال انسان کی بڑی کمزوری ہے اور مال کی محبت انسانی ذہن کے حساس ترین گوشے میں ہوتی ہے۔ اس جگہ مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام سے مروی فرمان قابل توجہ ہے فرمایا:

یَنَامُ الرَّجُلُ عَلَی الثَُّکْلِ وَلَا یَنَامُ عَلَی الْحَرَبِ۔ (نہج البلاغۃ حکمت: ۲۰۷)

اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آ جاتی ہے مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی۔

اسی لیے انفاق کا ثواب سب سے زیادہ ہے۔ چنانچہ سورہ بقرہ آیت ۲۶۱ کے مطابق انفاق کا اجر سات سو گنا ہے اور بعض خاصان خدا کے انفاق کا اجر اس سے دو گنا یعنی چودہ سو ہے۔


آیات 17 - 20