آیات 26 - 30
 

کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ (کیا تم اس دنیا میں ہمیشہ رہو گے؟) ہرگز نہیں! جب جان حلق تک پہنچ جائے گی،

وَ قِیۡلَ مَنۡ ٜ رَاقٍ ﴿ۙ۲۷﴾

۲۷۔ اور کہا جائے گا: کون ہے(بچانے والا) معالج؟

وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ ﴿ۙ۲۸﴾

۲۸۔ اور وہ سمجھ جائے گا کہ اس کی جدائی کا لمحہ آگیا ہے،

وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹﴾

۲۹۔ اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی،

اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمَسَاقُ ﴿ؕ٪۳۰﴾

۳۰۔ تو وہ آپ کے رب کی طرف چلنے کا دن ہو گا۔

تفسیر آیات

۱۔ کَلَّاۤ: ہرگز نہیں۔ یعنی یہ مشرکین قیامت کو ہرگز تسلیم نہیں کریں گے یا یہ جملہ سوالیہ کا جواب ہو گا: کیا تم اس دنیا میں ہمیشہ رہو گے؟ کَلَّاۤ ہرگز نہیں۔ تمہاری جان جب حلق تک پہنچ جائے گی اور حالت نزع تم پر طاری ہو گی تو اس وقت کہا جائے گا: کون ہے اس مرنے والے جاں بلب کو شفا دینے والا؟ فرشتوں میں یہ سوال اٹھے گا کہ اس مرنے والے کی روح کو اٹھانے والے فرشتہ ہائے رحمت ہوں گے یا فرشتہ ہائے عذاب۔

۲۔ وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ: یہاں بھی ظن، یقین کے معنوں میں ہے کہ جب جان حلق تک پہنچ چکی ہو گی تو اس وقت اس کی موت یقینی طور پر سامنے آئے گی اور سمجھ جائے گا اب جدائی کا وقت آ گیا ہے۔ مال و اولاد، دنیا کی زندگی سے جدائی کا وقت آ گیا ہے۔

۳۔ وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ: اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹ جائے گی۔ یہ تعبیر اپنے لغوی ظہور کے مطابق لی جائے تو معنی یہ ہوئے کہ حالت نزع میں انسان کی پنڈلی حرکت میں نہ ہو گی۔ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے ہو گی یا اس بات کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ میت کو جب کفن دیا جاتا ہے تو دونوں پنڈلیوں کو لپیٹ لیا جاتا ہے۔

اگر عربی محاورے کی طرف رجوع کیا جائے تو الساق نامساعد حالت اور مصیبت کوکہتے ہیں۔ اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے: وہ وقت، مصیبت بالائے مصیبت کا وقت ہو گا۔ دنیا سے جدائی کی مصیبت، آخرت کے عذاب میں داخل ہونے کی مصیبت۔

البتہ لغت کے اعتبار سے سوق نزع کی حالت کو بھی کہتے ہیں۔ روایت ہے:

دخل سعید علی عثمان وھو فی السوق۔ (لسان العرب)

سعید، عثمان کے پاس اس وقت داخل ہوئے جب وہ حالت نزع میں تھے۔

گویا اس کی روح کو چلایا گیا کہ بدن سے نکل جائے۔

۴۔ اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمَسَاقُ: اے رسول! یہ وہ وقت ہو گا جب مجرموں کو اللہ کی بارگاہ کی طرف چلایا جائے گا۔ الۡمَسَاقُ چلانے کو کہتے ہیں۔ اس میں چلانے والا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ منزل بھی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ جہاں مجرم کو حساب دینا اور اپنے عمل کا نتیجہ بھگتنا ہے۔


آیات 26 - 30