آیات 22 - 23
 

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾

۲۲۔ بہت سے چہرے اس روز شاداب ہوں گے،

اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ وہ اپنے رب(کی رحمت) کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ یَّوۡمَئِذٍ: ’’ اس دن‘‘سے مراد حساب چکانے کے بعدجنت میں داخل ہونے کا زمانہ ہو سکتا ہے کہ اہل جنت کے چہروں پر جنت کی نعمتوں کی وجہ سے شادابی نظر آئے گی:

تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ ﴿۲۴﴾ (۸۳ مطففین: ۲۴)

ان کے چہروں سے آپ نعمتوں کی شادابی محسوس کریں گے۔

۲۔ اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ: اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ کو آخرت کے دن بالکل اسی طرح دیکھنا جس طرح ہم دنیا میں چیزوں کو دیکھتے ہیں ناممکن ہے۔ دنیا میں کسی چیز کو کسی خاص جہت، شکل اور رنگ میں دیکھ سکتے ہیں جب وہ ہمارے سامنے ہو۔ زیادہ دور بھی نہ ہو، آنکھوں کے زیادہ نزدیک بھی نہ ہو۔ روشنی کی شعاعیں اس چیز سے منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں۔ روئیت کی یہ شکل نہ دنیا میں ممکن ہے، نہ آخرت میں۔

صحیحین کی ابو سعید خدری اور ابوہریرہ کی روایات کے ظاہری معنی کہ تم آخرت میں اپنے رب کو بالکل اسی طرح دیکھو گے جیسے تم دنیا میں سورج اور چاند کو دیکھتے ہو، قرآن کی صراحت لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ شَیۡءٌ۔۔۔۔ (۴۲ شوریٰ: ۱۱) کے خلاف ہے۔

اگر ہم روئیت کے اس دنیاوی تصور سے ہٹ کر جائزہ لیں تو بات قابل فہم ہو سکتی ہے کہ آخرت کی رؤیت وہ نہ ہو گی جو دنیا میں ہے بلکہ آخرت کی روئیت کی نوعیت اس روئیت کے قریب اور مشابہ ہو گی جو دنیا میں اس کے خاص بندوں کی ہوتی ہے۔

چنانچہ ابی عبد اللہ علیہ السلام سے مروی ہے کہ جب حبرٌ حضرت علی علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا: یا امیر المومنین!

ھَلْ رَأَیْتَ رَبَّکَ حِینَ عَبَدْتَہُ قَالَ فقال: وَیْلَکَ مَا کُنْتُ اَعْبُدُ رَبّاً لَمْ اَرَہُ قَالَ وَ کَیْفَ رَاَیْتَہُ قَالَ وَیْلَکَ لَا تُدْرِکُہُ الْعُیُونُ فِی مُشَاھَدَۃِ الْاَبْصَارِ وَلَکِنْ رَاَتْہُ الْقُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْاِیْمَانِ۔۔۔ (الکافی۱: ۹۷ باب ابطال الرویۃ)

جب آپ اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں تو کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ فرمایا: میں ایسے رب کی عبادت نہیں کرتا جسے میں نے دیکھا نہ ہو۔ عرض کیا: کیسے دیکھا ہے؟ فرمایا: اللہ کو بصارت کے ذریعے آنکھوں نے نہیں دیکھا بلکہ ایمانی حقائق کے ذریعے دلوں نے دیکھا ہے۔

دوسری جگہ فرمایا:

اَبْیَنُ مِمَّا تَرَی الْعُیُونُ۔۔۔۔ (نہج البلاغہ خ ۱۵۵)

وہ ان چیزوں سے بھی زیادہ (اپنے مقام پر) ثابت و آشکار ہے کہ جنہیں آنکھیں دیکھتی ہیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام سے مروی ہے:

عمیت عین لا تراک۔ (بحار الانوار۶۴: ۱۴۲)

اندھی ہو وہ آنکھ جو تجھے دیکھ نہ سکے۔

سورہ انعام آیت ۱۰۳ اور اعراف آیت ۱۴۳ کے ذیل میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ادراک نگاہوں کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ کا مطلب یا تو الی رحمۃ ربھا ہے یا نظر کی نوعیت قلبی اور معرفتی ہے۔

بعض مفسرین نے نَاظِرَۃٌ کا معنی انتظار سے کیا ہے۔ یعنی اپنے رب کی رحمت کے انتظار میں ہوں گے اور استعمالات عرب سے اس کی شاہد مثال پیش کی ہے۔ اس جگہ بھی اِلٰی کے ساتھ مذکور ہے ہو سکتا ہے معنی یہ ہوں: منتظرۃ لثواب ربھا۔ یہ چہرے اپنے رب کی طرف سے ثواب کے منتظر ہوں گے۔

مجمع البیان میں آیا ہے کہ یہی موقف مجاہد، حسن، سعید بن جبیر اور ضحاک نے اختیار کیا ہے اور حضرت علی علیہ السلام سے بھی یہی روایت ہے۔


آیات 22 - 23