فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱﴾

۴۱۔پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پر بطور گواہ پیش کریں گے۔

41۔ انسانی اعمال اللہ کی طرف سے متعین شہادتوں کی گرفت میں ہوتے ہیں۔ اعضا و جوارح، ملائکہ کے ساتھ ساتھ ہر امت کے نبی اس امت کے اعمال پر شاہد ہیں۔ رسول ختمی مرتبت صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی اپنی امت کے اعمال کے شاہد ہیں۔ اگر ہٰۤؤُلَآءِ کا اشارہ ہر امت کے گواہ کی طرف سمجھا جائے تو آیت کا مطلب یہ بنے گا: رسالتمآب صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمام نبیوں پر شاہد ہیں اور شاہد کے لیے حضور شرط ہے، لہٰذا رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو تمام انبیاء کے اعمال پر علم حضوری حاصل ہے۔

یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا﴿٪۴۲﴾

۴۲۔ اس روز کافر اور جو لوگ رسول کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش (زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دفن ہو کر) زمین کے برابر ہو جائیں اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعۡلَمُوۡا مَا تَقُوۡلُوۡنَ وَ لَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ حَتّٰی تَغۡتَسِلُوۡا ؕ وَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ اَوۡ جَآءَ اَحَدٌ مِّنۡکُمۡ مِّنَ الۡغَآئِطِ اَوۡ لٰمَسۡتُمُ النِّسَآءَ فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا صَعِیۡدًا طَیِّبًا فَامۡسَحُوۡا بِوُجُوۡہِکُمۡ وَ اَیۡدِیۡکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا غَفُوۡرًا﴿۴۳﴾

۴۳۔اے ایمان والو! نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم کیا کہ رہے ہو اور جنابت کی حالت میں بھی، یہاں تک کہ غسل کر لو مگر یہ کہ کسی راستے سے گزر رہے ہو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر آیا ہو یا تم نے عورتوں سے ہمبستری کی ہو اور تمہیں پانی میسر نہ آئے تو پاک مٹی پر تیمم کرو چنانچہ اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کرو، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا، بخشنے والا ہے۔

43۔ حرمت شراب کا حکم بتدریج نافذ ہوا۔ اس آیت میں نشے کی حالت میں نماز کے نزدیک جانے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح حالت جنابت میں بھی نماز کے قریب جانے سے روکا گیا ہے۔ اِلَّا عَابِرِیۡ سَبِیۡلٍ مگر یہ کہ راستے سے گزر رہا ہو۔ اس تعبیر سے مسجد کی طرف اشارہ آگیا کہ جنابت کی حالت میں مسجد کے قریب نہ جاؤ مگر یہ کہ راستے سے گزر رہے ہو۔ اس طرح مسجد عبور کرنے کی اجازت مل گئی۔ البتہ مسجد میں بیٹھنے سے منع کیا گیا۔ مگر حضرت علی علیہ السلام و دیگر افراد اہل بیت علیہ السلام کو اجازت حاصل رہی۔ چنانچہ رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسجد کی طرف کھلنے والے سارے دروازے بند کرنے کا حکم دیا لیکن صرف حضرت علی علیہ السلام کو اجازت دے دی کہ دروازہ کھلا رکھیں۔ چنانچہ اس بات کو بارہ سے زائد جلیل القدر اصحاب نے روایت کیا ہے۔

تیمم کے موارد: مرض کی حالت میں ہو، پانی کا استعمال مضر ہو، رفع حاجت یا عورتوں سے مباشرت کی صورت میں پانی میسر نہ ہو۔ تیمم کی احتیاطی صورت یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کو ایک مرتبہ مٹی پر مارے، پھر پوری پیشانی اور دونوں ہاتھوں پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک پھیر دے، دوسری دفعہ دونوں ہاتھوں کو پھر زمین پر مارے اور دونوں ہاتھوں پر کلائی سے انگلیوں کے سرے تک پھیر دے۔

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ۴۴﴾

۴۴۔ کیا آپ نے ان لوگوں کا حال نہیں دیکھا جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا تھا (لیکن) وہ ضلالت خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم (بھی) گمراہ ہو جاؤ۔

وَ اللّٰہُ اَعۡلَمُ بِاَعۡدَآئِکُمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَلِیًّا ٭۫ وَّ کَفٰی بِاللّٰہِ نَصِیۡرًا﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور اللہ تمہارے دشمنوں کو بہتر جانتا ہے اور تمہاری سرپرستی کے لیے اللہ کافی ہے اور تمہاری مدد کے لیے بھی اللہ کافی ہے۔

44۔45۔ یہود و نصاریٰ کو اہل کتاب اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان کے پاس کتاب کا کچھ حصہ موجود ہے۔ اکثر حصہ یا تو ان سے گم ہو گیا ہے یا تحریف کر کے بدل دیا گیا ہے۔ سیاق آیت سے مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اہل کتاب مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک اور محبت کا اظہار کر کے یہ عندیہ دینے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں کے بہی خواہ ہمدرد ہیں اور مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آج کل کے اہل کتاب بھی دوستی اور امداد کے پیچھے اپنے برے عزائم پورے کرتے ہیں۔ قرآن ہمیشہ امت مسلمہ کو اس کے دشمن کی مکاریوں سے آگاہ رکھتا ہے اور بار بار اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہارا مددگار اللہ ہی ہو سکتا ہے، اس پر بھروسہ کرو۔ ان دشمنوں پر ہرگز بھروسہ نہ کرو۔

مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ عَنۡ مَّوَاضِعِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَمِعۡنَا وَ عَصَیۡنَا وَ اسۡمَعۡ غَیۡرَ مُسۡمَعٍ وَّ رَاعِنَا لَـیًّۢا بِاَلۡسِنَتِہِمۡ وَ طَعۡنًا فِی الدِّیۡنِ ؕ وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا وَ اسۡمَعۡ وَ انۡظُرۡنَا لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ وَ اَقۡوَمَ ۙ وَ لٰکِنۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۴۶﴾

۴۶۔ یہودیوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو کلمات کو ان کی جگہ سے بدل دیتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم نے سنا اور نہ مانا اور سنو (لیکن) تیری بات نہ سنی جائے اور اپنی زبانوں کو مروڑ کر دین پر طعن کرتے ہوئے کہتے ہیں: رَاعِنَا اور اگر وہ کہتے: ہم نے سنا اور مان لیا اور سنیے ہم پر نظر کیجیے تو یہ ان کے حق میں بہتر اور درست ہوتا لیکن اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان پر لعنت کر رکھی ہے اس لیے سوائے تھوڑے لوگوں کے وہ ایمان نہیں لاتے۔

46۔ تحریف معنوی یہ ہو گی کہ اپنی خواہش کے مطابق کتاب کی تاویلات کر کے کچھ سے کچھ بنا دیا جائے۔ ممکن ہے کہ یہاں اہل کتاب کی طرف سے تحریف کا مطلب کلمات کو توڑ مروڑ کر تبدیل کرنا اور دین کا مذاق اڑانا ہو۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اٰمِنُوۡا بِمَا نَزَّلۡنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا فَنَرُدَّہَا عَلٰۤی اَدۡبَارِہَاۤ اَوۡ نَلۡعَنَہُمۡ کَمَا لَعَنَّاۤ اَصۡحٰبَ السَّبۡتِ ؕ وَ کَانَ اَمۡرُ اللّٰہِ مَفۡعُوۡلًا﴿۴۷﴾

۴۷۔ اے وہ لوگو جنہیں کتاب دی گئی تھی اس پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے جو تمہارے پاس موجود کتاب کی بھی تصدیق کرتا ہے قبل اس کے کہ ہم (بہت سے) چہروں کو بگاڑ کر ان کی پیٹھ کی طرف پھیر دیں یا ہم ان پر اسی طرح لعنت کریں جس طرح ہم نے ہفتہ (کے دن) والوں پر لعنت کی اور اللہ کا حکم تو ہو کر رہتا ہے ۔

47۔ نَّطۡمِسَ وُجُوۡہًا : چہروں کی نشانیاں مٹانے سے مراد ممکن ہے کہ بروز قیامت چہروں کا مسخ شدہ حالت میں ہونا ہو یا ممکن ہے کہ چہرے سے مراد مقام و عزت ہو اور بگاڑنے سے مراد یہ ہو کہ انہیں ذلیل و خوار کیا جائے۔

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا﴿۴۸﴾

۴۸۔ اللہ اس بات کو یقینا معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ (کسی کو) شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے علاوہ دیگر گناہوں کو جس کے بارے میں وہ چاہے گا معاف کر دے گا اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا اس نے تو عظیم گناہ کا بہتان باندھا۔

48۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ شرک کے علاوہ باقی گناہوں کے ارتکاب میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہاں یہ بتانا مقصود ہے اللہ کی رحمت و مغفرت ہر گناہ سے زیادہ وسیع ہونے کے باوجود شرک اس کے دائرﮤ رحمت و مغفرت میں نہیں آتا، لہٰذا اگر کوئی شخص مشرک نہ ہو اور گناہ گار مر جائے تو اس کے سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص مشرک مرتا ہے تو اس کے لیے مغفرت کی کوئی گنجائش نہیں۔ شرک یہ ہے کہ تدبیر کائنات میں اللہ کے ساتھ کسی ایسے کو شریک بنائے جو اللہ کی تدبیر کے ذیل میں نہیں آتا ہے۔ اپنے آپ کو شرک باللہ سے دور رکھنے کے بعد مومن کے لیے اس آیت میں بہت بڑی خوشخبری ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: ما فی القرآن ارجی من ھذہ الایۃ ۔اس آیت سے زیادہ امید افزا آیت قرآن میں نہیں ہے۔ (مجمع البیان)

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا﴿۴۹﴾

۴۹۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکباز خیال کرتے ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔

49۔ اہلِ کتاب کی ایک نہایت خطرناک خصلت کی طرف اشارہ ہے۔ وہ اپنے آپ کو پاکیزہ نسل اور برگزیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ تکبر ہے اور تکبر ہی کے نتیجے میں دوسری قوموں کا استحصال ہوتا ہے۔

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ وَ کَفٰی بِہٖۤ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿٪۵۰﴾

۵۰۔دیکھ لیجیے: یہ لوگ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھتے ہیں اور صریح گناہ کے لیے یہی کافی ہے۔