آیات 41 - 42
 

فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍۭ بِشَہِیۡدٍ وَّ جِئۡنَا بِکَ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ؃۴۱﴾

۴۱۔پس (اس دن) کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو ان لوگوں پر بطور گواہ پیش کریں گے۔

یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا﴿٪۴۲﴾

۴۲۔ اس روز کافر اور جو لوگ رسول کی نافرمانی کرتے رہے تمنا کریں گے کہ کاش (زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں دفن ہو کر) زمین کے برابر ہو جائیں اور وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ فَکَیۡفَ اِذَا جِئۡنَا: یعنی ہر زمانے کے رسول اپنی امت پر اللہ کی عدالت گاہ میں گواہ ہوں گے کہ پیغام الٰہی کو ان لوگوں تک پہنچا دیا۔ ان لوگوں نے اس پر عمل کیا ہو یا عصیان کیا ہو، دونوں صورتوں میں گواہی دیں گے۔

چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:

وَكُنْتُ عَلَيْہِمْ شَہِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْہِمْ ۔ (بحار الانوار ۱۴: ۳۳۸۔ ۵ مائدہ: ۱۱۷)

میں ان پر گواہ تھا، جب تک میں ان میں تھا۔

اس سے تو معلوم ہوتا ہے انبیاء اپنے معاصر لوگوں کے اعمال پر گواہ ہوں گے۔ ممکن ہے انبیاء کے بعد ان کے اوصیاء بھی گواہ ہوں۔

۲۔ عَلٰی ہٰۤؤُلَآءِ: ان لوگوں پر۔ اس سے مراد امت ہے تو اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جس طرح ہر نبی اپنی امت کے اعمال پر گواہ ہے، اے رسول (ص) آپ ان لوگوں یعنی اس امت پر گواہ ہیں۔

بعض کے نزدیک ہٰۤؤُلَآءِ سے مراد ہر امت کا شہید ہے۔ اس صورت میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تمام امتوں کے گواہوں پر گواہ ہوں گے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام سے روایت ہے:

مَا دَخَلْتُ عَلَی اَبْیِ قَطُّ اِلَّا وَجَدتہ بَاکِیاً وَقَالَ اِنَّ النَّبِی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بَکیٰ حِیْنَ وَصَلَ فِی قِرَائَ تِہِ فَکَیْفَ اِذَا جِئنَا مِنْ کُلَّ اُمَّۃٍ بشھید و جئنا بک علی ھؤلاء شھیداً۔ فانْظُروُاْ اِلَی الشاِھَد کَیْفَ یَبْکی وَ المَشھودُ عَلَیھْمِ یَضْحَکُوْنَ (ارشاد القلوب ۱: ۹۷ باب ۲۳)

میں اپنے والد گرامی کی خدمت میں جب بھی حاضر ہوا، ان کو روتے ہوئے پایا اور فرمایا: نبی کریم (ص) جب اس آیت تک پہنچ جاتے تو گریہ فرمایا کرتے تھے۔ دیکھو گواہ گریہ کرتے ہیں، جب کہ وہ لوگ گریہ نہیں کر رہے ہیں جن پر آپ (ص) گواہ ہیں۔

اعمال امت پر رسول اکرم(ص) کے شاہد ہونے کے سلسلے میں مزید تشریح کے لیے سورہ بقرہ آیت ۱۴۳ ملاحظہ فرمائیں۔

۳۔ یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا: جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا اور رسول کی نافرمانی کی، وہ خواہش کریں گے کہ وہ نابود ہو جائیں۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا:

یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا ۔ (۷۸ نباء: ۴۰)

۔۔۔ کافر کہ اٹھے گا: اے کاش! میں خاک ہوتا۔

۴۔ وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ: رسولؐ کی نافرمانی سے المیزان نے رسولؐ کی ولایت کی نافرمانی مراد لیا ہے، شریعت کی نہیں۔ چنانچہ اگر رسولؐ کسی کو بلائیں اور وہ اس بلانے پر رسولؐ کی خدمت میں حاضر نہ ہو تو یہ رسولؐ کی بطور حاکم نافرمانی ہے۔

۵۔ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا: کافر قیامت کے دن کوئی جرم نہیں چھپا سکیں گے۔ خود اللہ جانتا ہے۔ اس کے اپنے اعضا گواہی دیں گے اور وقت کے رسول بھی گواہی دیں گے۔


آیات 41 - 42