آیات 49 - 50
 

اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا﴿۴۹﴾

۴۹۔کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکباز خیال کرتے ہیں، (نہیں) بلکہ اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاکیزہ کرتا ہے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہو گا۔

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ یَفۡتَرُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ الۡکَذِبَ ؕ وَ کَفٰی بِہٖۤ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿٪۵۰﴾

۵۰۔دیکھ لیجیے: یہ لوگ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھتے ہیں اور صریح گناہ کے لیے یہی کافی ہے۔

تشریح کلمات

فَتِیۡلًا:

( ف ت ل ) فتل ، رسی کو بل دینا۔ کھجور کی گٹھلی کے شگاف میں جو باریک سا ڈورا ہوتا ہے اسے فتیل کہتے ہیں۔ آئمہ اہل بیت (ع) سے منقول روایات کے مطابق گٹھلی پر موجود نقطے کو فتیل کہتے ہیں۔ بہرحال یہ حقیر شے کے لیے ضرب المثل ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ یُزَکُّوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ: اہل کتا ب کی ایک نہایت خطرناک اور ناپاک خصلت کی طرف اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو پاکیزہ نسل اور برگزیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ یہود کہتے ہیں: نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۸) ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اس تصور کا لازمی نتیجہ تکبر ہے اور تکبر کا لازمی نتیجہ دوسری قوموں کا استحصال ہے۔ اہل کتاب اپنے برگزیدہ قوم ہونے کو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں، جس کی رد میں فرمایا کہ یہ ایک صریح افترا ہے۔

قرآنی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کے لیے بھی یہ نہایت مذموم صفت ہے کہ انسان اپنے آپ کو پاکیزہ، بہت نیک تصور کرے۔ یہ خودبینی ہے جو آداب بندگی کے خلاف ہے۔ چنانچہ سورہ نجم آیت ۳۲ میں فرمایا:

فَلَا تُزَکُّوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی ۔۔۔۔

اپنے نفس کی پاکیزگی نہ جتاؤ، اللہ پرہیزگار کو خوب جانتا ہے۔

حدیث ہے:

کفی بالمرء جھلا ان یرضی عن نفسہ ۔ (غرر الحکم حکمت ۷۰۶۵۔ ص ۳۰۷ باب سبب الرضا عن النفس)

انسان کی جہالت کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے آپ سے راضی رہے۔ یعنی خود پسند رہے۔

مَنْ رَضِیَ عَنْ نَفْسِہِ کَثُرَ السَّاخِطُ عَلَیْہِ ۔ (نہج البلاغۃ۔ حکمت ۶)

جو اپنے آپ کو پسند کرتا ہے، اس کو ناپسند کرنے والے زیادہ ہوں گے۔

یہ انفرادی خود پسندی ہے۔ اجتماعی خود پسندی یہ ہے کہ ایک نسل اور نژاد اپنے آپ کو دوسری نسلوں سے بہتر سمجھے۔

۲۔ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیۡ مَنۡ یَّشَآءُ: کسی کی پاکیزگی کی گواہی اللہ دے سکتا ہے، جو لوگوں کے باطن سے باخبر ہے، ارادوں اور ارادوں کے اصل محرکات کو جانتا ہے۔

۳۔ وَ لَا یُظۡلَمُوۡنَ فَتِیۡلًا: اللہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ جس تعریف کا کوئی حقدار ہو گا، اس کی تعریف و تحسین ہو گی اور تزکیہ ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ اپنے آپ کو تقدس مآب سمجھنا آداب بندگی کے خلاف ہے۔


آیات 49 - 50