اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾

۸۱۔ کیا تم اس کلام کے ساتھ بے اعتنائی برتتے ہو؟

وَ تَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور تم تکذیب کرنے کو ہی اپنا حصہ قرار دیتے ہو؟

82۔ رِزۡقَکُمۡ : تم تکذیب کو اپنی روزی کا حصہ قرار دیتے ہو۔ دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: تم تکذیب کو اپنی غذا بنا لیتے ہو۔ تیسرا ترجمہ حذف مضاف کے تحت اس طرح ہو سکتا ہے: تم رزق کے شکر کی جگہ تکذیب کو رکھتے ہو۔ ای۔۔ تجعلون شکر رزقکم ۔ (بحار الانوار 55: 312)

فَلَوۡ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الۡحُلۡقُوۡمَ ﴿ۙ۸۳﴾

۸۳۔ پس جب روح حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے،

وَ اَنۡتُمۡ حِیۡنَئِذٍ تَنۡظُرُوۡنَ ﴿ۙ۸۴﴾

۸۴۔ اور تم اس وقت دیکھ رہے ہوتے ہو،

وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡکُمۡ وَ لٰکِنۡ لَّا تُبۡصِرُوۡنَ﴿۸۵﴾

۸۵۔ اور (اس وقت) تمہاری نسبت ہم اس شخص (مرنے والے) کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تم نہیں دیکھ سکتے۔

فَلَوۡ لَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ غَیۡرَ مَدِیۡنِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾

۸۶۔ پس اگر تم کسی کے زیر اثر نہیں ہو،

86۔ اگر تم کسی کے زیر اثر نہیں ہو تو حلق تک پہنچی ہوئی روح کو واپس کیوں نہیں کرتے۔

تَرۡجِعُوۡنَہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو (اس نکلی ہوئی روح کو) واپس کیوں نہیں لے آتے؟

فَاَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾

۸۸۔ پھر اگر وہ (مرنے والا) مقربین میں سے ہے

فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ﴿۸۹﴾

۸۹۔ تو (اس کے لیے) راحت اور خوشبودار پھول اور نعمت بھری جنت ہے۔

89۔ حالت احتضار کا ذکر ہے۔ مقرب لوگوں کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ روح و ریحان قبر میں اور جنت نعیم آخرت میں ہو گی۔ (بحار الانوار 6:222)

وَ اَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنۡ اَصۡحٰبِ الۡیَمِیۡنِ ﴿ۙ۹۰﴾

۹۰۔ اور اگر وہ اصحاب یمین میں سے ہے