آیات 88 - 89
 

فَاَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ ﴿ۙ۸۸﴾

۸۸۔ پھر اگر وہ (مرنے والا) مقربین میں سے ہے

فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ ۬ۙ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ﴿۸۹﴾

۸۹۔ تو (اس کے لیے) راحت اور خوشبودار پھول اور نعمت بھری جنت ہے۔

تشریح کلمات

رَوح:

سانس کو کہتے ہیں۔ اسی سے راحت کو رَوح کہتے ہیں چونکہ سانس انسان کے لیے راحت جان ہے۔ راغب نے کہا ہے رَوح اور رُوح ایک ہی ہیں۔

رَیۡحَانٌ:

ریحان کے ایک معنی رزق کے ہیں اور یہ خوشبو کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ مروی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین علیہم السلام کے بارے میں فرمایا:

اِنَّ رَیْحَانَتَیَّ مَنَ الدُّنْیَا الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ۔۔۔۔ (الکافی ۶: ۲)

حسن اور حسین (علیہما السلام) دنیا میں میری خوشبو ہیں۔

یہاں سے بعض نے ریحان کے معنی میں کہا ہے کہ جس سے طبیعت کو انبساط اور کیف و سرور مل جائے اسے ریحان کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ ابتدائے سورہ میں بیان کردہ تین گروہوں کے بارے میں حالت احتضار اور جان کنی کی حالت کا بیان ہے کہ اگر وہ مرنے والا مقربین میں سے ہے تو جان کنی کے وقت وہ رَوْح یعنی راحت و آرام میں ہو گا۔ جان کنی کی تکلیف نہ ہو گی اور ساتھ ریحان میں ہو گا جس طرح انسان کسی اچھی خوشبو سے کیف و سرور میں ہوتا ہے۔

۲۔ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ: اور بعد از مرگ نعمتوں والی جنت میں ہو گا۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا:

فَاَمَّاۤ اِنۡ کَانَ مِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ۔ فَرَوۡحٌ وَّ رَیۡحَانٌ۔ یعنی فی قبرہ وَّ جَنَّتُ نَعِیۡمٍ۔ یعنی فی الآخرۃ۔۔۔۔ (امالی للصدوق:۲۹۰)

اگر وہ مقربین میں سے ہے تو اس کے لیے قبر میں رَوح اور ریحان ہے اور آخرت میں جَنَّتُ نَعِیۡمٍ ہے۔


آیات 88 - 89