آیت 32
 

وَ اِذَا قِیۡلَ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ السَّاعَۃُ لَا رَیۡبَ فِیۡہَا قُلۡتُمۡ مَّا نَدۡرِیۡ مَا السَّاعَۃُ ۙ اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ﴿۳۲﴾

۳۲۔ اور جب (تم سے) کہا جاتا تھا کہ یقینا اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیں ہے تو تم کہتے تھے: ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہے، ہمیں گمان سا ہوتا ہے اور ہم یقین کرنے والے نہیں ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اِذَا قِیۡلَ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ: جب ان مشرکین کو وعدۂ الٰہی کی حقانیت اور قیامت کی آمد کی خبر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ قیامت ایک ایسی حقیقت ہے جو قابل شک تردید نہیں ہے چونکہ قیامت نہ ہونے کی صورت میں یہ جہاں بے معنی اور عبث کھیل بن جاتا ہے تو مشرکین اس حقیقت کو قبول کرنے کی جگہ انتہائی بے اعتنائی کے ساتھ کہتے ہیں:

۲۔ مَّا نَدۡرِیۡ مَا السَّاعَۃُ: ہم نہیں جانتے قیامت کیا چیز ہے؟ وہ سمجھتے تو تھے قیامت کسے کہتے ہیں مگر وہ از روئے بے اعتنائی کہتے ہیں اور اسے ناقابل قبول سمجھتے تھے۔

۳۔ اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا:ظَنًّا وہ مصدر ہے جو نوعیت بیان کرنے کے لیے بھی آتا ہے۔ یہاں ظن کی نوعیت بتانے کے لیے ہے کہ قیامت کے بارے میں ہلکا سا ایک گمان ہم رکھتے ہیں جو بہت ناچیز ہے۔ ظنا ضعیفا اور قابل اعتنا نہیں ہے۔

۴۔ وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ: قیامت کے وقوع کے بارے میں ہمیں یقین نہیں آتا۔ بعض کے مطابق قیامت کے امکان کے بارے میں یقین نہیں آتا۔


آیت 32