آیت 34
 

وَ قِیۡلَ الۡیَوۡمَ نَنۡسٰکُمۡ کَمَا نَسِیۡتُمۡ لِقَآءَ یَوۡمِکُمۡ ہٰذَا وَ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿۳۴﴾

۳۴۔ اور کہا جائے گا: آج ہم تمہیں اسی طرح بھلا دیتے ہیں جس طرح تم نے اپنے اس دن کے آنے کو بھلا دیا تھا اور تمہارا ٹھکانا جہنم ہے اور کوئی تمہارا مددگار نہیں ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ قِیۡلَ الۡیَوۡمَ نَنۡسٰکُمۡ: حقیقی نسیان جو یادداشت کے فقدان سے عبارت ہے اللہ تعالیٰ کے لیے متصور نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں نسیان سے مراد بے اعتنائی ہے جو نسیان کا لازمہ ہے۔ چنانچہ جب کسی چیز کو بھول جاتا ہے تو اس کی طرف سرے سے توجہ نہیں رہتی اور مکمل بے اعتنائی ہو جاتی ہے۔ آیت کے اس جملے کا یہ مفہوم بنتا ہے:

جس طرح تم نے دنیا میں قیامت اور روز جزا کو قابل اعتنا نہیں سمجھا آج اللہ تعالیٰ تمہیں قابل اعتنا نہیں سمجھے گا۔

دنیا میں تو اللہ تعالیٰ نے منکر معاد کو بھی اپنی رحمتوں سے محروم نہیں رکھا چونکہ دنیا دار تکلیف و امتحان ہے لیکن آخرت میں یہ لوگ اللہ کی رحمتوں سے محروم ہوں گے چونکہ قیامت دار جزا ہے۔

۲۔ وَ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ: جب منکر لوگ اللہ کی بے اعتنائی کا شکار ہو کر ہر قسم کی رحمت سے محروم ہوں گے تو سوائے آتش کے اور کوئی ٹھکانا قابل تصور نہ ہو گا چونکہ آتش میں نہ ہونے کے لیے رحمت الٰہی درکار ہے۔

۳۔ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ: خود قابل اعتنا نہیں ہیں تو کوئی اور ان کی سفارش اور شفاعت بھی نہیں کر سکے گا چونکہ شفاعت، ایک توجہ اور رحمت ہے جس سے یہ لوگ محروم ہوں گے۔


آیت 34