اِذۡ قَالَ رَبُّکَ لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیۡ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنۡ طِیۡنٍ﴿۷۱﴾

۷۱۔ جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا:میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں۔

فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ﴿۷۲﴾

۷۲۔ پس جب میں اسے درست بنا لوں اور اس میں اپنی روح میں سے پھونک دوں تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا۔

فَسَجَدَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمۡ اَجۡمَعُوۡنَ ﴿ۙ۷۳﴾

۷۳۔ چنانچہ تمام کے تمام فرشتوں نے سجدہ کیا،

اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اِسۡتَکۡبَرَ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۷۴﴾

۷۴۔ سوائے ابلیس کے جو اکڑ بیٹھا اور کافروں میں سے ہو گیا۔

قَالَ یٰۤاِبۡلِیۡسُ مَا مَنَعَکَ اَنۡ تَسۡجُدَ لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ اَسۡتَکۡبَرۡتَ اَمۡ کُنۡتَ مِنَ الۡعَالِیۡنَ﴿۷۵﴾

۷۵۔ فرمایا: اے ابلیس !جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے اسے سجدہ کرنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟ کیا تو نے تکبر کیا ہے یا تو اونچے درجے والوں میں سے ہے؟

75۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ مفہوم نکالا ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی تھیں جن کا شمار عالین میں ہوتا ہے اور وہ سجدہ کرنے پر مامور نہ تھے۔

یَدَیَّ : میرے دونوں ہاتھ۔ یہاں ہاتھوں سے مراد قوت ہے اور ہاتھ کو طاقت کے معنوں میں استعمال کرنا ایک محاورہ ہے۔

قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ؕ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ﴿۷۶﴾

۷۶۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے مٹی سے بنایا ہے ۔

قَالَ فَاخۡرُجۡ مِنۡہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۚۖ۷۷﴾

۷۷۔ فرمایا: پس نکل جا یہاں سے کہ تو یقینا مردود ہے۔

77۔ رَجِیۡمٌ کے لغوی معنی راندہ شدہ کے ہیں۔ مِنۡہَا یعنی اس جگہ سے جہاں آدم علیہ السلام کے لیے سجدے کا حکم ہوا تھا۔

وَّ اِنَّ عَلَیۡکَ لَعۡنَتِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ الدِّیۡنِ﴿۷۸﴾

۷۸۔اور یوم جزا تک تم پر میری لعنت ہے۔

78۔ یوم جزا تک لعنت۔ یعنی رحمت سے دوری۔ یوم جزا کے بعد عذاب شدید ہو گا۔

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ اس نے کہا: میرے رب! پس (ان لوگوں کے) اٹھائے جانے کے روز تک مجھے مہلت دے۔

79۔ اٹھائے جانے تک۔ یعنی قیامت تک مجھے مہلت دے۔

قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ﴿ۙ۸۰﴾

۸۰۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے،

80۔ ابلیس کو مہلت مل گئی۔ اس طرح جن و انس میں گمراہ کرنے والوں کو مہلت مل جاتی ہے تاکہ نظام یک طرفہ نہ ہو۔ ایک طرف مجرم کے عذاب میں اضافہ ہو، دوسری طرف مکلف کا امتحان و آزمائش بحال رہے۔ اگر گمراہ کرنے والوں کی جڑ کاٹ دی جائے اور انسان میں موجود خواہشات نفسانی کو ختم کر دیا جائے اور صرف فطرت سلیمہ، عقل سلیم، فرشتوں اور ہادیان برحق ہی کو موقع دیا جائے تو یہ نظام یک طرفہ ہو جاتا ہے۔ آزمائش و امتحان معقول نہ رہتا، چونکہ اس سے انسان خود مختار نہ رہتا۔ فافہم ذلک۔