آیات 79 - 81
 

قَالَ رَبِّ فَاَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۷۹﴾

۷۹۔ اس نے کہا: میرے رب! پس (ان لوگوں کے) اٹھائے جانے کے روز تک مجھے مہلت دے۔

قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ ﴿ۙ۸۰﴾

۸۰۔ فرمایا: تو مہلت ملنے والوں میں سے ہے،

اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ﴿۸۱﴾

۸۱۔ معین وقت کے دن تک۔

تفسیر آیات

۱۔ ابلیس کو مہلت مل گئی۔ اس طرح جن و انس میں سے گمراہ کر نے والوں کو مہلت مل جاتی ہے تاکہ نظام یکطرفہ نہ ہو۔ ایک طرف مجرم کے عذاب میں اضافہ ہو اور دوسری طرف مکلف کا امتحان و آزمائش بحال رہے۔ اگر گمراہ کر نے والوں کی جڑ کاٹ دی جائے، انسان میں موجود خواہشات نفسانی ختم کر دی جائیں اور صرف فطرت سلیمہ، عقل سلیم، فرشتوں اور ہادیان برحق ہی کو موقع دیا جائے تو یہ نظام یک طرفہ ہو جاتا۔ آزمائش اور امتحان کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی، انسان کو خود مختاری نہ ملتی اور اختیار و انتخاب کا حق نہ ملتا۔ فافہم ذلک۔

۲۔ اِلٰی یَوۡمِ الۡوَقۡتِ الۡمَعۡلُوۡمِ: ابلیس نے قیامت تک کے لیے مہلت مانگی۔ جواب میں وقت معلوم تک کے لیے مہلت دی گئی۔ مفسرین فرماتے ہیں وقت معلوم سے مراد نفخہ اول ہے۔ پہلی بار صور پھونکنے تک مہلت ہے۔ اس کے بعد جب سب مر جائیں گے تو ابلیس کو مہلت دینے کا مطلب نہیں بنتا۔


آیات 79 - 81