قَالُوۡا رَبَّنَا مَنۡ قَدَّمَ لَنَا ہٰذَا فَزِدۡہُ عَذَابًا ضِعۡفًا فِی النَّارِ﴿۶۱﴾

۶۱۔ وہ کہیں گے: ہمارے رب! جس نے ہمیں اس انجام سے دوچار کیا ہے اسے آگ میں دگنا عذاب دے۔

وَ قَالُوۡا مَا لَنَا لَا نَرٰی رِجَالًا کُنَّا نَعُدُّہُمۡ مِّنَ الۡاَشۡرَارِ ﴿ؕ۶۲﴾

۶۲۔ اور وہ کہیں گے: کیا بات ہے ہمیں وہ لوگ نظر نہیں آتے جنہیں ہم برے افراد میں شمار کرتے تھے؟

62۔ جنہیں ہم دنیا میں حقیر اور نہایت گئے گزرے سمجھتے تھے وہ یہاں جہنم میں نظر نہیں آتے۔ یہاں تو صرف ہم اور ہمارے بڑے لوگ ہی موجود ہیں۔

اَتَّخَذۡنٰہُمۡ سِخۡرِیًّا اَمۡ زَاغَتۡ عَنۡہُمُ الۡاَبۡصَارُ﴿۶۳﴾

۶۳۔ کیا ہم یونہی ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے یا اب (ہماری) آنکھیں انہیں نہیں پاتیں؟

اِنَّ ذٰلِکَ لَحَقٌّ تَخَاصُمُ اَہۡلِ النَّارِ﴿٪۶۴﴾

۶۴۔ یہ جہنمیوں کے باہمی جھگڑے کی حتمی بات ہے۔

64۔ جہنمیوں کا جھگڑا ایک حقیقت ہے۔ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ ہر شکست خوردہ جماعت اپنی شکست اور رسوائی کے بعد آپس میں جھگڑتی ہے اور کامیابی حاصل کرنے والے آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ چنانچہ جنت والے آپس میں سلام سلام کر رہے ہوں گے اور جہنم والے آپس میں جھگڑ رہے ہوں گے۔

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا مُنۡذِرٌ ٭ۖ وَّ مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ ﴿ۚ۶۵﴾

۶۵۔ آپ کہدیجئے: میں تو صرف تنبیہ کرنے والا ہوں اور کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو واحد، قہار ہے۔

65۔ آیت کا مرکزی نکتہ یہ ہے: معبود صرف اللہ ہے۔ اس زمانے کے مخاطب مشرکین کا یہ عقیدہ تھا کہ معبود صرف اللہ نہیں ہے اور بھی معبود ہیں۔ ان کے نزدیک معبود وہ ہوتا ہے جو کائنات کی تدبیر میں حصہ دار ہے۔ دوسرے لفظوں میں معبود وہ ہوتا ہے جو رَب کے مقام پر فائز ہے۔ رَب وہ ہوتا ہے جو کائنات کی تدبیر کرے۔ ان کی رد میں فرمایا: آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، سب کا رَب اللہ ہے، جو غالب آنے والا ہو کر بھی غفّار ہے۔ قرآن تکراراً اس بات کی طرف انسانوں کی توجہ مبذول کراتا ہے کہ رَب وہ ہے جو خالق ہے۔ خلق اور تدبیر میں تفریق ممکن نہیں ہے۔

رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا الۡعَزِیۡزُ الۡغَفَّارُ﴿۶۶﴾

۶۶۔ وہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے، وہ بڑا غالب آنے والا ، بڑا معاف کرنے والا ہے۔

قُلۡ ہُوَ نَبَؤٌا عَظِیۡمٌ ﴿ۙ۶۷﴾

۶۷۔ کہدیجئے: یہ ایک بڑی خبر ہے،

67۔ نَبَؤٌا عَظِیۡمٌ سے مراد بعض کے نزدیک سابقہ آیات کا مضمون ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے۔

اَنۡتُمۡ عَنۡہُ مُعۡرِضُوۡنَ﴿۶۸﴾

۶۸۔ جس سے تم منہ پھیرتے ہو۔

مَا کَانَ لِیَ مِنۡ عِلۡمٍۭ بِالۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰۤی اِذۡ یَخۡتَصِمُوۡنَ﴿۶۹﴾

۶۹۔ مجھے عالم بالا کا علم نہ تھا جب وہ (فرشتے) بحث کر رہے تھے۔

69۔ یعنی میرا واحد ذریعہ علم وحی ہے۔ اگر وحی نہ ہوتی تو مجھے عالم بالا کا علم نہ ہوتا کہ وہاں کس میں کس بات پر جھگڑا ہو رہا ہے۔ اس جھگڑے سے مراد ابلیس کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ وہ جھگڑا ہے جس کا ذکر اگلی آیات میں آ رہا ہے۔

اِنۡ یُّوۡحٰۤی اِلَیَّ اِلَّاۤ اَنَّمَاۤ اَنَا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ﴿۷۰﴾

۷۰۔ میری طرف وحی محض اس لیے ہوتی ہے کہ میں نمایاں طور پر فقط تنبیہ کرنے والا ہوں۔