آیت 41
 

اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ۚ وَ لَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا﴿۴۱﴾

۴۱۔ اللہ آسمانوں اور زمین کو یقینا تھامے رکھتا ہے کہ یہ اپنی جگہ چھوڑ نہ جائیں، اگر یہ اپنی جگہ چھوڑ جائیں تو اللہ کے بعد انہیں کوئی تھامنے والا نہیں ہے، یقینا اللہ بڑا بردبار، بخشنے والا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ: کائنات کی اس بیکراں فضا میں موجود اجرام کو ایک غیر مرئی کڑی میں اللہ ہی نے مربوط رکھا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو صرف خلق کیا ہے۔ خلق کے بعد یہ خود چل رہی ہو یا اللہ کے علاوہ کوئی اور چلا رہا ہو بلکہ ہر لمحہ تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ایک لمحہ کے لیے فیض الٰہی رکتا نہیں ہے۔ کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ۔ (۵۵ رحمٰن: ۲۹) وہ ہر روز ایک (نئی) کرشمہ سازی میں ہے۔ لہٰذا اس نظام کائنات کی بقا، تخلیق مسلسل پر موقوف ہے اور پہلے بھی ذکر کیا تخلیق مسلسل، وہی تدبیر ہے۔

۲۔ وَ لَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ: اللہ کی قائم کردہ یہ کڑی اگر ٹوٹ جائے (جس کی سائنسداں پیشگوئی کرتے ہیں) تو کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس کائنات کو سنبھالے اور ان کڑیوں کو دوبارہ جوڑ دے۔ جس ذات نے اس کائنات کو خلق کیا ہے وہی اس کائنات کو قائم رکھ سکتی ہے۔ لہٰذا مشرکین کا یہ نظریہ کسی بنیاد پر قائم نہیں ہے کہ تدبیر کائنات میں ان کے معبودوں کاکوئی کردار ہے۔

۳۔ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا: یہ اللہ کے حلم و بردباری کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں اکثر لوگوں کے حکم خدا سے منحرف ہونے کے باوجود اس نظام کو قائم رکھا ہے اور وہ غفور ہے، جلد عذاب نازل نہیں فرماتا۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کا وجود اور بقا دونوں اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں۔

۲۔ کائنات کو تباہی سے صرف اللہ بچا سکتا ہے۔


آیت 41