آیات 42 - 43
 

وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ جَہۡدَ اَیۡمَانِہِمۡ لَئِنۡ جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ لَّیَکُوۡنُنَّ اَہۡدٰی مِنۡ اِحۡدَی الۡاُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ مَّا زَادَہُمۡ اِلَّا نُفُوۡرَۨا ﴿ۙ۴۲﴾

۴۲۔ اور یہ لوگ اللہ کی پکی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی تنبیہ کرنے والا آتا تو وہ ہر قوم سے بڑھ کر ہدایت یافتہ ہو جاتے لیکن جب ایک متنبہ کرنے والا ان کے پاس آیا تو ان کی نفرت میں صرف اضافہ ہی ہوا۔

اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٴ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا﴿۴۳﴾

۴۳۔ یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الٰہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَقۡسَمُوۡا بِاللّٰہِ: بعض مصادر میں آیا ہے کہ قریش نے جب سنا کہ یہود و نصاری نے اپنے اپنے رسولوں کی تکذیب کی ہے تو کہا: اگر ہمارے پاس کوئی رسول آتا تو ہم ان سے بہتر ان کی پذیرائی کرتے۔ یہ اس وقت کی بات تھی جب ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم مبعوث نہیں ہوئے تھے۔

۲۔ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ نَذِیۡرٌ: جب ان کی طرف رسول آیا تو سوائے ان کی نفرت کے اور کسی چیز میں اضافہ نہیں ہوا۔ اس مضمون کی آیت سورہ انعام آیت ۱۵۷ میں بھی آ گئی ہے۔

۳۔ اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَ: ان میں آنے والے رسول سے نفرت کی دو وجوہات کا ذکر ہے: ایک وجہ تکبر ہے۔ وہ اپنے آپ کو اس رسول سے بہتر، بالاتر اور افضل سمجھتے تھے۔ ان کے تکبر اور نخوت نے انہیں تکذیب کرنے پر اکسایا ہے۔ دوسری وجہ ان میں موجود بری چال ہے جس کے تحت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کو شہید کرنے پر ان کا اتفاق ہوا تھا۔

۴۔ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ: اس آیۂ شریفہ میں مشرکین کی بری چال کے ذکر کے بعد ایک اصول ارشاد فرمایا: بری چال، خود چال چلنے والے کو ہی لے ڈوبتی ہے۔ ہر عمل اور ہر چال کا ایک قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اس میں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔ اس بارے میں عربوں میں بھی ایک ضرب المثل ہے: من حفر لاخیہ جبا وقع فیہ منکبا۔ جو اپنے برادر کے خلاف گڑھا کھودے گا وہ خود اسی میں منہ کے بل گر جائے گا۔

امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے:

لَوْ لَا اَنَّ الْمَکْرَ وَ الْخَدِیعَۃَ فِی النَّارِ لَکُنْتُ اَمْکَرَ النَّاسِ۔ (الکافی ۲: ۲۳۶)

اگر مکار اور فریبی جہنمی نہ ہوتا تو میں عربوں میں سب سے زیادہ مکار ہوتا۔

دوسری حدیث میں آیا ہے۔

خمسۃ فی کتاب اللّٰہ تعالیٰ من کن فیہ کن علیہ قیل و ما ھی یا رسول اللہ قال: النکث، والمکر، والبغی، والخداع، والظلم۔ ( معدن الجواہر : ۴۸)

پانچ چیزیں اگر کسی میں ہوں تو وہ خود اس کے خلاف ثابت ہوں گی۔ پوچھا گیا: یا رسول اللہؐ وہ پانچ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: عہد شکنی، مکر، بغاوت، دھوکہ اور ظلم۔

۵۔ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ: کیا یہ لوگ اس بات کا انتظار کر رہے جس برے انجام سے سابقہ قومیں دوچار ہوئی ہیں یہ بھی اسی انجام سے دوچار ہو جائیں۔ گزشتہ اقوام کی عبرتناک تاریخ ان کے سامنے ہے کہ انہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی۔ اللہ نے انہیں ایک وقت تک مہلت دی پھر اس کے بعد وہ ایسی تباہ ہوئیں کہ نام و نشان تک مٹ گیا۔

۶۔ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا: سنت اللّٰہ سے مراد وہ قانون الٰہی ہے جو مجرمین کے لیے ہے۔ اس قانون میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آ سکتی کہ سزا کی جگہ انعام دیا جائے یا بغیر توبہ و انابت کے بلاوجہ سزا معاف ہو جائے۔ اللہ کا یہ قانون اٹل ہے۔

۷۔ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا: نہ ہی قانون الٰہی میں انحراف ہو گا کہ مجرم قوم کی جگہ ایک بے گناہ قوم کو سزا دے بلکہ اللہ کا قانون اٹل ہے اس قانون کی زد میں صرف مجرم ہی آئیں گے۔

اہم نکات

۱۔ امتحان سے عملاً گزرے بغیر صرف دعویٰ سے حقیقت حال معلوم نہیں ہوتی۔

۲۔ تکبر بہت سی برائیوں کے لیے بنیاد ہے۔

۳۔ انسان بری چال میں خود پھنس جاتا ہے۔


آیات 42 - 43