اسۡتِکۡـبَارًا فِی الۡاَرۡضِ وَ مَکۡرَ السَّیِّیَٴ ؕ وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ ؕ فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ ۚ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا﴿۴۳﴾

۴۳۔ یہ زمین میں تکبر اور بری چالوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ بری چال کا وبال اس کے چلنے والے پر ہی پڑتا ہے، تو کیا یہ لوگ اس دستور (الٰہی) کے منتظر ہیں جو پچھلی قوموں کے ساتھ رہا؟ لہٰذا آپ اللہ کے دستور میں کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے اور نہ آپ اللہ کے دستور میں کوئی انحراف پائیں گے۔

43۔ سُنَّۃَ اللّٰہِ سے مراد قانون الہٰی ہے، جو مجرمین کے لیے ہے۔ اس میں نہ کوئی تبدیلی آئے گی کہ سزا کی جگہ انعام دیا جائے، نہ کوئی تحویل ہو گی کہ مجرم قوم کی جگہ دوسری قوم کو سزا ملے، بلکہ اللہ کا قانون اٹل ہے اور اس قانون کی زد میں صرف مجرم ہی آئیں گے۔

وَ لَا یَحِیۡقُ الۡمَکۡرُ السَّیِّیٴُ اِلَّا بِاَہۡلِہٖ : اس آیہ شریفہ میں مشرکین کی بری چال کے ذکر کے بعد ایک اصول ارشاد فرمایا: بری چالیں خود چال چلنے والے کو ہی لے ڈوبتی ہیں۔ ہر عمل اور ہر چال کا ایک قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ اس میں دیر ہے، اندھیر نہیں ہے۔

حدیث میں آیا ہے: خمسۃ فی کتاب اللہ تعالیٰ من کن فیہ کن علیہ قیل و ما ہی یا رسول اللہ قال: النکث و المکر و البغی و الخداع و الظلم (معدن الجواہر ص48) پانچ چیزیں اگر کسی میں ہوں تو اس کے خلاف ثابت ہوں گی۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ وہ پانچ چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا: عہد شکنی، مکر، بغاوت، دھوکہ اور ظلم۔