یُعَذِّبُ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَرۡحَمُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ اِلَیۡہِ تُقۡلَبُوۡنَ﴿۲۱﴾

۲۱۔ وہ جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔

وَ مَاۤ اَنۡتُمۡ بِمُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِی السَّمَآءِ ۫ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیۡرٍ﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ اور تم اللہ کو نہ زمین میں عاجز بنا سکتے ہو اور نہ آسمان میں اور اللہ کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہو گا اور نہ مددگار۔

وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ لِقَآئِہٖۤ اُولٰٓئِکَ یَئِسُوۡا مِنۡ رَّحۡمَتِیۡ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۲۳﴾

۲۳۔ اور جنہوں نے اللہ کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا وہ میری رحمت سے ناامید ہو چکے ہیں اور انہی کے لیے دردناک عذاب ہے۔

23۔ جب وہ اللہ کے حضور جانے اور جنت و آخرت کے منکر ہیں تو ان کے لیے رحمت الہٰی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا اقۡتُلُوۡہُ اَوۡ حَرِّقُوۡہُ فَاَنۡجٰىہُ اللّٰہُ مِنَ النَّارِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۲۴﴾

۲۴۔ تو اس (ابراہیم) کی قوم کا صرف یہ جواب تھا کہ وہ کہیں: انہیں قتل کر ڈالو یا جلا دو لیکن اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا، ایمان والوں کے لیے یقینا اس میں نشانیاں ہیں۔

24۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت الی الحق کے مقابلے میں اس طاغوت کے پاس منطقی جواب نہیں تھا۔ بنا بریں طاقت کی زبان استعمال کرتے ہوئے ان کو قتل کرنے یا آگ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اس سے بچنے کے مادی وسائل نہ تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی مدد کی اور آگ کو گلزار میں تبدیل کر دیا۔ یہ اللہ کی سنت جاریہ ہے کہ جہاں اس کے بندے مادی وسائل نہ رکھتے ہوں اور دشمن پور ی طاقت کے ساتھ مقابلے میں آ جائے تو اللہ کی مدد معجزے کے طور پر آ جاتی ہے اور اگر بندوں کے پاس مادی وسائل اور طاقت موجود ہو اور وہ دشمن کا مقابلہ نہ کر سکیں تو اللہ کی مدد نہیں آتی۔ دوسری قابل توجہ بات یہ ہے کہ نمرود والے اس عظیم معجزے کے مشاہدے کے بعد بھی ایمان نہیں لائے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کل کے مادہ پرست بھی محسوس معجزوں کے باوجود ایمان نہیں لائے۔

وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا ۙ مَّوَدَّۃَ بَیۡنِکُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ ثُمَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکۡفُرُ بَعۡضُکُمۡ بِبَعۡضٍ وَّ یَلۡعَنُ بَعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ۫ وَّ مَاۡوٰىکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ﴿٭ۙ۲۵﴾

۲۵۔ اور ابراہیم نے کہا: تم صرف اس لیے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو لیے بیٹھے ہو کہ تمہارے درمیان دنیاوی زندگی کے تعلقات ہیں پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے اور جہنم تمہارا ٹھکانا ہو گا اور تمہارا کوئی مددگار بھی نہ ہو گا۔

25۔ آپس کے تعلقات اور برادری کی بندش ہی سبب ہے کہ تم اپنی برادری کے رسم و رواج سے باہر سوچتے نہیں ہو۔ اگر برادری کی بندش سے آزاد ہو جاتے تو حق بات تمہاری سمجھ میں آ جاتی۔ لیکن قیامت کے دن تم ایک دوسرے کے منکر اور دشمن بن جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے۔

فَاٰمَنَ لَہٗ لُوۡطٌ ۘ وَ قَالَ اِنِّیۡ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ﴿۲۶﴾

۲۶۔ اس وقت لوط ان پر ایمان لے آئے اور کہنے لگے میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں، یقینا وہی بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے

26۔ آگ سے نجات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ تقریر سن کر صرف حضرت لوط علیہ السلام نے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نبوت و رسالت کی تائید کی اور ان کے ساتھ کلدان (عراق) سے ہجرت کر کے ماورائے اردن چلے گئے۔

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی اور انہیں دنیا ہی میں اجر دے دیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔

27۔ چنانچہ نمرود کا تخت و تاج مٹ گیا، لیکن نمرود کے ہاتھوں اسیر اور بے بس وہی ابراہیم علیہ السلام چار ہزار برس سے تمام ادیان سماوی کی امامت کر رہے ہیں۔

وَ لُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ ۫ مَا سَبَقَکُمۡ بِہَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنَ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور لوط کو بھی (رسول بنایا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: بلاشبہ تم اس بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہو جس کا تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی ارتکاب نہیں کیا۔

28۔ یعنی قوم لوط سے پہلے دنیا اس حرکت بد سے آشنا نہ تھی یا دنیا میں کسی قوم میں یہ بد فعلی اس قدر نہیں پھیلی جیسے اس قوم میں پھیلی ہے۔

اَئِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ وَ تَقۡطَعُوۡنَ السَّبِیۡلَ ۬ۙ وَ تَاۡتُوۡنَ فِیۡ نَادِیۡکُمُ الۡمُنۡکَرَ ؕ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا ائۡتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کیا تم (شہوت رانی کے لیے) مردوں کے پاس جاتے ہو اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی محافل میں برے کام کرتے ہو؟ پس ان کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ وہ کہیں: ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ اگر تم سچے ہو۔

29۔ قوم لوط کی بستی چونکہ شام جانے والے قافلوں کے راستے میں واقع تھی، وہ ان قافلوں پر رہزنی کرتے تھے اور اپنی بدکاریاں پوشیدہ طور پر نہیں کرتے تھے، بلکہ اس کے لیے محفلیں جماتے تھے۔ جیسا کہ آج پکچر گیلری، سینما، میوزک ہال وغیرہ میں بھی منکرات بجا لائے جاتے ہیں۔

قَالَ رَبِّ انۡصُرۡنِیۡ عَلَی الۡقَوۡمِ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿٪۳۰﴾

۳۰۔ لوط نے کہا: میرے رب! ان مفسدوں کے خلاف میری مدد فرما۔