وَ لَیَعۡلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ لَیَعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ اور اللہ نے یہ ضرور واضح کرنا ہے کہ ایمان والے کون ہیں اور یہ بھی ضرور واضح کرنا ہے کہ منافق کون ہیں؟

11۔ اگر یہ سورہ مکمل مکی تسلیم کیا جائے تو اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ منافقت مکی دور سے شروع ہو چکی تھی۔ لیکن یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ مکے میں منافقت شروع ہو گئی ہو کہ زبان سے اسلام کا اظہار ہو اور دل میں کفر چھپا ہوا ہو، مگر یہ کہ منافقت سے ضعیف الایمان مراد لیے جائیں جو تھوڑی سی تکلیف پہنچنے پر عقیدہ بدل دیتے ہیں۔

وَ قَالَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوۡا سَبِیۡلَنَا وَ لۡنَحۡمِلۡ خَطٰیٰکُمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِحٰمِلِیۡنَ مِنۡ خَطٰیٰہُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ ؕ اِنَّہُمۡ لَکٰذِبُوۡنَ﴿۱۲﴾

۱۲۔ اور کفار اہل ایمان سے کہتے ہیں: ہمارے طریقے پر چلو تو تمہارے گناہ ہم اٹھا لیں گے حالانکہ وہ ان گناہوں میں سے کچھ بھی اٹھانے والے نہیں ہیں، بے شک یہ لوگ جھوٹے ہیں۔

12۔ کیونکہ سزا اسے ملے گی جس نے جرم کیا ہے اور جس نے جرم کرنے پر اکسایا ہے تو اسے بھی سزا ملے گی۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ جرم کوئی کرے سزا کسی کو ملے۔ وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزۡرَ اُخۡرٰی ۔

وَ لَیَحۡمِلُنَّ اَثۡقَالَہُمۡ وَ اَثۡقَالًا مَّعَ اَثۡقَالِہِمۡ ۫ وَ لَیُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ عَمَّا کَانُوۡا یَفۡتَرُوۡنَ﴿٪۱۳﴾

۱۳۔ البتہ یہ لوگ اپنے بوجھ ضرور اٹھائیں گے اور اپنے بوجھوں کے ساتھ مزید بوجھ بھی اور قیامت کے دن ان سے ضرور پرسش ہو گی اس بہتان کے بارے میں جو وہ باندھتے رہے ہیں۔

وَ لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰی قَوۡمِہٖ فَلَبِثَ فِیۡہِمۡ اَلۡفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمۡسِیۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَہُمُ الطُّوۡفَانُ وَ ہُمۡ ظٰلِمُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان کے درمیان پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے، پھر طوفان نے انہیں اس حال میں اپنی گرفت میں لیا کہ وہ ظلم کا ارتکاب کر رہے تھے۔

14۔ توریت میں آیا ہے: ”طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے تین سو برس زندہ رہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی ساری عمر ساڑھے نو سو برس کی تھی۔“ یہ بات بعید از قیاس بھی نہیں ہے، کیونکہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے کے لوگ عام طور پر طویل العمر ہوتے تھے اور سات سو سال عمر گزارنا تو معمول تھا، کیونکہ وہ سو فیصد نیچر کے ساتھ ہم آہنگ زندگی بسر کرتے تھے۔

فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَصۡحٰبَ السَّفِیۡنَۃِ وَ جَعَلۡنٰہَاۤ اٰیَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ پھر ہم نے نوح اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس کشتی کو اہل عالم کے لیے نشانی بنا دیا۔

وَ اِبۡرٰہِیۡمَ اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ وَ اتَّقُوۡہُ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور ابراہیم کو بھی (بھیجا) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو، اگر سمجھو تو یہ تمہارے حق میں بہتر ہے۔

اِنَّمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَوۡثَانًا وَّ تَخۡلُقُوۡنَ اِفۡکًا ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ لَکُمۡ رِزۡقًا فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ وَ اعۡبُدُوۡہُ وَ اشۡکُرُوۡا لَہٗ ؕ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ تم تو اللہ کو چھوڑ کر بس بتوں کو پوجتے ہو اور جھوٹ گھڑ لیتے ہو، اللہ کے سوا تم جن کی پوجا کرتے ہو وہ تمہیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے، لہٰذا تم اللہ کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اسی کی بندگی کرو اور اسی کا شکر ادا کرو، تم اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے۔

17۔ بت کے متعلق ساری باتیں خود تمہاری گھڑی ہوئی ہیں۔ نہ تو یہ بت تمہارا خالق ہے، نہ تمہارا رازق ہے۔ تم اس واہمے سے نہیں، حقیقت سے وابستہ ہو جاؤ۔ مشرکین جن بتوں کی پوجا کرتے تھے وہ فرشتوں اور جنوں کی شبیہ تھے۔ وہ ان شبیہوں کی پوجا اس لیے کرتے تھے کہ وہ فرشتے اور جنات خوش ہو جائیں جن کے ہاتھ میں ان کا رزق ہے۔ فرمایا: ان بتوں کے ہاتھ میں تمہاری روزی نہیں ہے: فَابۡتَغُوۡا عِنۡدَ اللّٰہِ الرِّزۡقَ ۔ تم اللہ کے ہاں سے رزق طلب کرو جو تمہارا حقیقی رازق ہے۔ لہذا رازق ہونے کے اعتبار سے بھی بندگی اللہ کی ہونی چاہیے اور شکر بھی اسی رازق کا ادا کرنا چاہیے۔

وَ اِنۡ تُکَذِّبُوۡا فَقَدۡ کَذَّبَ اُمَمٌ مِّنۡ قَبۡلِکُمۡ ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور اگر تم تکذیب کرو تو تم سے پہلے کی امتوں نے بھی تکذیب کی ہے اور رسول کی ذمے داری بس یہی ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کرے۔

اَوَ لَمۡ یَرَوۡا کَیۡفَ یُبۡدِئُ اللّٰہُ الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ﴿۱۹﴾

۱۹۔ کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ آسان ہے۔

19۔ دعوت فکر ہے کہ یہ واقعہ روز تمہارے سامنے پیش آتا رہتا ہے کہ اللہ ایک شئ کو عدم سے وجود میں لے آتا ہے، پھر وہ شئ اپنی مثل پیدا کرتی ہے۔ تولید مثل کا یہ عمل تمام حیوانات اور نباتات میں جاری رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے دانہ گندم سے گندم کی خلقت کی ابتدا کی۔ اس کے بعد اعادﮤ خلق کا یہ سلسلہ جاری ہے۔ جب یہ عمل تمہارے روز کا مشاہدہ ہے تو خود تمہارے اعادہ خلق میں اللہ کو کون سی دشواری ہو گی؟

قُلۡ سِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ بَدَاَ الۡخَلۡقَ ثُمَّ اللّٰہُ یُنۡشِیٴُ النَّشۡاَۃَ الۡاٰخِرَۃَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔ کہدیجئے: تم زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ(اللہ نے) خلقت کی ابتدا کیسے کی پھر اللہ دوسری خلقت پیدا کرے گا، یقینا اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

20۔ سِیۡرُ فِی الۡاَرۡضِ سے احساس و شعور بیدار ہو جاتا ہے۔ مانوس مناظر سے شاید آنکھ نہ کھلے، لیکن جدید مناظر سے آنکھیں کھل سکتی ہیں، پھر سِیۡرُ فِی الۡاَرۡضِ سے کرﮤ ارض کے مختلف گوشوں سے ابتدائے خلقت کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ کھدائیوں سے کچھ ابتدائی معلومات حاصل ہو رہی ہیں۔ آئندہ نسلوں کو مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد اگر راز حیات منکشف نہ بھی ہو لیکن عین ممکن ہے کہ اعادﮤ حیات کا مسئلہ سائنسی طور پر بھی حل ہو جائے۔

زمین میں چل پھر کر ارضیاتی سطحی مطالعہ کیا جائے تو ابتدائے خلقت کا راز منکشف ہو جائے گا۔ نَّشْاَۃَ الْاُوْلٰى کا مسئلہ حل ہونے پر نَّشْاَۃَ الْاُخْرٰى بھی قابل فہم ہو جائے گا۔