آیت 27
 

وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا ۚ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق اور یعقوب عنایت کیے اور ان کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھ دی اور انہیں دنیا ہی میں اجر دے دیا اور آخرت میں وہ صالحین میں سے ہوں گے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ وَہَبۡنَا لَہٗۤ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ: ہم نے ابراہیم کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ کہتے ہیں یہاں اسماعیل علیہ السلام کا ذکر اس لیے نہیں آیا چونکہ عمر کے آخری حصے میں اولاد سے مایوس ہونے کے بعد اسحاق علیہ السلام عنایت ہوئے تھے۔ اس لیے اس احسان کا خاص طور پر ذکر فرمایا:

۲۔ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَ الۡکِتٰبَ: چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد تمام انبیاء علیہم السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے مبعوث ہوئے۔ خاندانی نجابت اور وارثتی خصوصیات کو اس بار امانت کو اٹھانے کی اہلیت میں بڑا دخل ہے۔

اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ۔۔۔ (۶ انعام: ۱۲۴)

اللہ (ہی) بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے۔

اس لیے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ الٰہی منصب کا انتخاب اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اعلیٰ کا حصہ ہے۔

۳۔ وَ اٰتَیۡنٰہُ اَجۡرَہٗ فِی الدُّنۡیَا: دنیا میں جو نیک نامی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہے وہ کسی اور نبی کو نہیں۔ آپ علیہ السلام تمام ادیان سماوی کے امام ہیں اور سب اپنی حقانیت کے لیے آپ علیہ السلام کو سند قرار دیتے ہیں۔

نمرود کا تخت و تاج مٹ گیا لیکن نمرود کے ہاتھوں اسیر ہونے والے ابراہیم علیہ السلام آج تمام ادیان کی امامت کر رہے ہیں اور قیامت تک آپ علیہ السلام کی امامت قائم رہے گی۔

۴۔ وَ اِنَّہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ: ابراہیم علیہ السلام کو دنیا و آخرت دونوں میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ دنیا میں امامت کا مقام حاصل ہے اور آخرت میں صالحین کا اعلیٰ مقام حاصل ہو گا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ نے نبوت کو ایک خاندان میں مختص کر دیا ہے۔

۲۔ خاندانی نجابت کو منصب الٰہی کی اہلیت میں دخل ہے۔


آیت 27